Friday, November 8, 2013

صوبائی حکومتوں کے اربوں روپوں کا خورد برد / زرعی ترقیاتی بنک کے خلاف کاروائی کی ضرورت .


صوبائی حکومتوں کے اربوں روپوں کا خورد بردقابل احترام ہآئی کورٹ / عدلیہ /نیب کو چاہے کہ "از خود نوٹس " لے
صوبائی حکومتوں کے  اکیس ارب روپے سے زیادہ  کا خورد برد اور متعلقہ احکام کی بے حسی. بورڈ آف ریونیوپنجاب لاہورکی مجرمانہ غفلت .ابھی تک کوئی موثر کاروائی نہیں ہوئی.
سابقہ ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ بنک آف پاکستانADBP---حال زرعی ترقیاتی بنک آف پاکستان ZTBL--کے ذریعےصوبائی حکومتوں کے اربوں روپوں کا خورد برد ہوا ہے.واقعہ یہ ہے کہ باقیداروں سے زرعی بنک کی انتظامیہ اپنے بقایا جات وصول کرتے وقت وصولی کی رقم اور قسط کے ساتھ ہی دو فی صد (2%)ریونیو کمیشن بھی وصول کرتی رہی جو کہ متعلقہ صوبائی حکومت کے کنسالیڈیٹڈ فنڈ کے اکاونٹ میں بذریعہ، سٹیٹ/ نیشنل بنک یا خزانہ محکمہ مال (ٹریژری) جمع کروانا ہوتا تھا ،مگر بنک انتظامیہ رقوم کو صوبائی حکومتوں کے اکاونٹ میں جمع کروانے کی بجائے یا تو اپنے مصرف میں لاتی رہیں اوراس کا بہت بڑا حصه محکمہ مال کے افسران وغیرہ کو اعزازیہ کے طور پر دیتے رہی جو کہ اس ضمن میں پبلک فنڈز کا بہت بڑا خورد برد ہے .یا پھر کچھ رقم صوبائی حکومتوں کے کھاتوں میں بھی بطور کاروائی جمع کرواتی رہی. اس طرح پبلک فنڈز کے اربوں روپے متعلقہ صوبائی حکومتوں کے بیان کردہ کھاتوں میں نہ جا سکے ، جس کی وجہ سے فنڈز کی موثروصولی ، مناسب استعمال اور ثمرات سے عوام محروم رہی ، جو ایک بہت بڑا ظلم ہے ، خاص طور پراس حالت میں بھی جب پہلے ٹیکسوں کی وصولی میں واضح خورد برد ہوتا ہے اور نئے ٹیکس لگائےجاتے ہیں.
یہ کیس پچھلے کئی سالوں سے بورڈ آف ریونیو لاہور اور چیف منسٹرصاحب پنجاب کے دفاتر میں زیر التوا ہے اور کوئی وصولی عمل میں نہ لائی گئی ہے ،صرف بے ثمرخط و کتابت پر وقت ضائع کیا جا رہا ہے. جبکہ دوسرے صوبوں کے چیف منسٹرز کے دفاتر نے کوئی کاروائی سرے سے شروع ہی نہیں کی ،حالانکہ انہیں موثر طریقوں سے اطلاعات بھی دی گئیں تھیں.مورخہ 26.08.2006 کو ایک درخواست اس ضمن میں جناب صفدر جاوید سید ،سابقہ  سنئیر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب لاہور کو دی گئی ،مگر اس پر کوئی کاروائی نہ ہوئی. پھر جنوری ٢٠٠٨ کو ایک درخواست سیکرٹری بورڈ آف   ریونیو  پنجاب لاہور کو بطور یاد دہانی دی گئی .اور  روزنامہ "وقت" لاہور میں ایک مراسلہ بھی  مورخہ 14.01.2008 کو شائع ہوا جو کہ میرے خط پر تھا اور اسی موضوع پر تھا. ایک درخواست وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی دی گئی . بحوالہ چٹھی نمبری No.DS-D-CMS/08/OT-47//278/161 مورخہ30.040.2008,  وزیر اعلیٰ پنجاب ،لاہور کے دفتر سے بورڈ آف ریونیو پنجاب لاہور کو لکھا گیا کہ اس ضمن میں ضروری کاروئی کر کے متعلقه  وزیر اعلیٰ پنجاب لھوڑے کے دفتر کو بتایا جاۓ .اس خط کی ایک کاپی مجھے بھی ارسال کئی گئی.   پنجاب کے تمام  ضلعی ریونیو آفسران کو ریونیو بورڈ مذکورہ نے خط لکھ دیے  کہ اصل واجب الوصول رقوم کے گوشوارے  تیار کر کے دفتر ہذا کو جلد از جلد بھجیں جائیں تاکہ وصولی عمل میں لائی جاۓ . مگر  چونکہ ان رقوم  سے بہت زیادہ فائدہ ریوینو بورڈ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہوتا رہا ،اور ہو رہا تھا تو ان لوگوں، یعنی نائب تحصیلدار ،تحصیلدار ، اے.سی ، ڈی سی -کمشنر -ڈی سی اوز، ڈسٹرکٹ ریوینو آفسران  وغیرہ ،نے اس کام کے آگے روڑے اٹکانے شرو ع کر دیے جس کی وجہ سے یہ کام ابھی تک نہ مکمل اور زیر التوا ہے. یاد رہے کہ بورڈ آف رونے نے صرف سابقہ دس سال کے گوشوارے طلب کیے حالانکہ درخواست میں پچھلے کئی سالوں کا ،حقیقی طور پر مبنی، ذکر ہے.
ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو وہاڑی نے اپنے گوشوارے ،مورخہ 05.11.2008 میں بتایا کہ 3,41,18,280 روپے ، اور ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو ساہیوال نے بحوالہ گوشوارہ مورخہ 19.11.2008 میں بتایا کہ 78,99,793 روپے ابھی تک زرعی بنک سے  واجب الوصول ہیں. اگرچہ یہ رقوم اصل واجب الوصول رقوم سے بہت ہی کم بتائی گئیں ہیں لیکن پھر بھی یہ رقوم ابھی تک متعلقه محکمہ یا خرد برد کرنے والوں سے وصول نہیں کی گئیں ،جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریونیو بورڈ مذکورہ کس مجرمانہ فعل کا شکار ہے . ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو  گجرانوالہ نے بتایا کہ کوئی رقم نہ تو واجب الوصول ہے اور نہ ہی کوئی رقم خرد برد  ہوئی ہے ،حالانکہ بورڈ آف ریونیو کو  ہم سے فراہم کردہ  سٹیٹمنٹ کے چند حوالوں سے بتایا گیا کہ  ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو  گجرانوالہ ،کی چٹھی غلط بیانی اور بد دیانتی پر مبنی ہے ، اسی طرح  ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو  ننکانہ صاحب اور اٹک نے بھی غلط بیانی سے کام لیکر رونیو بورڈ لاہور کو دھوکا دیا ،مگر ابھی تک کوئی کاروائی عمل مین نہ . لائی گئی. دوسرے اضلاع سے بھی کوئی خاطر خواہ جواب نہ آیا.
زرعی ترقیاتی  بنک کی ایک شاخ پنڈی بھٹیاں زونل آفس سرگودھا ، میں مورخہ 28.06.2000 کو  19,00,000 کو محمد رفیق  اکاونٹس آفیسر اور مورخہ 30.06.2001 کو 12,50,000 روپوں کا رشید احمد چٹھہ منیجر نے خرد برد کیا . اور اسی طرح مورخہ 28.06.2002 کو 10,00,000,مورخہ 30.06.2003 کو 5,00,000 مورخہ 28.12.2003 کو 4,00,000 مورخہ .30.04.2004 کو .79.028 4  روپوں کا خرد برد ہوا مگر زونل چیف سرگودھا نے لکھا کہ کوئی رقم خرد برد نہیں ہوئی .  اس طرح زونل چیف زرعی بنک سرگودھا اور گوجرانوالہ نے غلط بیانی اور دھوکہ دیہی سے کام لیا . حالانکہ ان دونوں زونوں میں پچیس  کروڑ روپوں سے زیادہ ابھی تک واجب الوصول ہیں . اس امر کا ذکر سٹیٹ بنک کراچی کی چٹھی نمبری ACD/Cand SD-3332-Impl.01-ZTBL-128/2007/1676 مورخہ 11.12.2007 اور مورخہ 22.04.2008.میں ہے . اس کیس پر پرویز  مشرف دور میں کوئی کاروائی نہ ہوئی ،اور سٹیٹ بنک نے اس کیس کو دبا لیا. لیکن بعد کے دور میں بھی جسے جمہوری کہا جاتا ہے کوئی کام نہیں ہوا.
پنجاب بورڈ آف ریونیو کے منسٹر حاجی محمد اسحٰق کے دور میں اس کیس کو بالکل ٹھپ کر دیا گیا اور کوئی کاروائی نہ ہوئی. تو اس پر ایک درخواست وزیر اعلی پنجاب کو پھر مورخہ 30.11.2011 کو پیش کی گئی جس پر بورڈ آف ریونیو لاہور کو وزیر اعلی کئی جانب سے لکھا گیا جس کا نمبر ہے .No.DS-ST-/CMS/11/OT-47-1150-PT-22-0121140 مورخہ  01.12.2011 تاکہ رقم مذکورہ کی وصولی کئی جا سکے اور ضروری کاروائی کی جا سکے ، اس کے بعد میرے پھر رابطہ کرنے پر یاد دہانی کی چٹھیاں بھی لکھی گئیں جن میں سے  آخری مورخہ  24.03.2012 کی ہے . مگر کوئی موثر کاروائی نہیں ہوئی . ابھی تاک پوزیش جوں کی توں ہے .
اس ضمن میں صوبائی حکومت کی انتظامیہ کو چاہے تھا کہ علیحدہ سے ایک ذمہ دار ٹیم تشکیل دی جاتی جو پہلے وصولی کی رقوم کی چھان بین کرتی اور قابل وصولی رقوم کی فہرستیں تیار کر کے ،وصولی اور کاروائی کی مہم شروع کرتی اور نتیجتا وصولی بھی ہو سکتی اور ذمہ داران کے خلاف کاروائی بھی کی جاتی. مگر ایسا کچھ نہ کیا گیا ، اور وقت گزارنے کے لیے چند چٹھیاں لکھنے پر ہی اکتفاء کیا گیا. جو ایک مجرمانہ غفلت ہی نہیں بلکہ بدعنوانی کی بد ترین مثا ل ہے.
قابل احترام عدلیہ کے احکام پر اگر وزیراعظم پاکستان کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے تو یہاں کیوں نہیں ؟. ہائی کورٹس اور عدلیہ/نیب کو چاہے اس ضمن میں " از خود نوٹس" لے کر اس کیس کی چھان بین کروائی جاۓ، پبلک فنڈز کی وصولی کی جاۓ اور ذمہ داران کے خلاف موثر اور مناسب کاروائی کی جاۓ .


No.DS(ST)/CMS/11/OT-47(1150)Pt.22/121140 --CHIEF MINSTER SECRETARIAT PUNJAB. DATED LAHORE THE 24.03.2012.

BY .TALIB HUSSAIN- GUJRANWALA--- VOLUNTEER ADVISER TO ISLAMIC ECONOMY- E.MAIL. chahil20@gmail.com.
Other blog - http://talibhaq.blogspot.com/
Web site. www.alfalahshariah.com

Sunday, July 22, 2012

حضرت امام غزالی -رح- کا صوفیانہ سفر اور اس کے اثرات.

AL-GHAZALI(D-505 A.H-1111 AC)-HIS SPIRITUAL JOURNEY AND EXPERIENCE. Al-ghazali has spent more than 10 years to find the secrets of spirit in the field of Islamic Sufism. After completing his said journey and had written his findings in his  AUTOBIOGRAPHY . He writes that: Right from my early age. I had the thirst of unveiling and discovering the reality of matters or events. My this habit was an integral part of my natural instinct endowed by Allah. My determination and endeavours had no concern with it.------He declared that the Friends of Allah are only on the Right Way.
امام غزالی -رح- (م-٥٠٥ ہ ) کا شمار ایسے علماۓ اسلام میں ہوتا ہے جنہوں نے تصوف اور روحانی تجربات کوقریب قریب  سائنٹفک اصولوں اور طریقوں پر پرکھنے کی کوشش کی اوراپنی  عمر کا بیشتر حصہ روحانی مشقوں پر صرف کیا، الغزالی اس سلسلہ میں  مختلف علاقوں بشمول شام وغیرہ کے سفر پر رہے ،  اوران مکاشفات اور تجربات کے بعد  اپنی کتاب "المنقذ من الضلال " لکھی آپ   فرماتے ہیں .
" دس برس اسی حالت میں گزر گئے،ان  تنہایوں میں مجھے جو انکشافات ہوئے اور جو کچھ  مجھے حاصل ہوا، اس کی تفصیل اور اس کا استقصاء تو ممکن نہیں، لیکن ناظرین کے نفع کے لیے اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے یقینی طور پر معلوم ہو گیاہے کہ صوفیاء ہی اللہ کے راستے کے مالک ہیں ،ان کی سیرت بہترین سیرّت،ان کا طریق سب سے زیادہ مستقیم اور ان کے اخلاق سب سے زیادہ تربیت یافتہ اور صحیح ہیں. اگرکوئی عقلاء کی عقل ،حکماء کی حکمت اور شریعت کے رمز شناسوں کا علم مل کر بھی ان کی سیرت و اخلاق سے بہتر لانا چاہے تو ممکن نہیں، ان کے تمام ظاہری اور باطنی حرکات وسکنات، مشکواة نبوت سے ماخوز ہیں اور نور نبوت سے بڑھ کر روئے زمین پر کوئی نور نہیں جس سے روشنی حاصل  کی جاۓ"
یہ ضیف العقل لوگوں کی عادت ہے کہ حق کو لوگوں کی نسبت سے پہچانتے ہیں،لوگوں کو حق کی وجہ سے نہیں،اور عقل مند آدمی امیرالمومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتا ہے، آپ نے فرمایا.
" حق و راستی آدمیوں سے نہیں پہچانی جاتی، تم پہلے حق کو پہچانو! پھر اہل حق کو بھی پہچان لو گے"
عاقل پہلے حق کی معرفت حاصل کرتا ہے پھر نفس قول کی طرف متوجہ ہوتا ہے. اگر وہ حق ہوتا ہے تو اس کو تسلیم کر لیتا ہے خواہ اس کا قائل اہل باطل میں سے ہو یا اہل حق میں سے. بلکہ وہ گمراہ لوگوں کے اقوال سے حق و راستی چن کر الگ کرنے کا شائق ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سونے کے ساتھ مٹی ملی رہتی ہے اور صراف کے لیے کوئی خطرے کی بات نہیں اگر وہ قلب ساز کی تھیلی میں ہاتھ ڈال دے. کیونکہ وہ اپنی بصیرت سے کام لے کر زر خالص کو کھوٹے اور جعلی سکوں میں سے نکال لیتا ہے. لیکن بصیرت سے خالی (سادہ لوح) دیہاتی کو قلب ساز سے معاملہ کرنے میں روکنا چاہیے .
کامل پیراک کے سوا بیوقوف آدمی کو ساحل سمندر پر چہل قدمی سے منع کرنا چاہیے ، چھوٹے لڑکے کو سانپ چھونے  سے روکنا چاہیے نہ کہ ماہر سپیرے کو. اور میرے نزدیک کثرت ایسے(ناداں)  لوگوں کی ہے جو (بزعم خود)اپنے آپ کو عاقل اور ماہر گردانتے ہیں (اور سمجھتے ہیں کہ)حق و باطل کی تمیز میں اور ہدایت و گمراہی کے امتیاز میں انہیں کمال حاصل ہے.(مجلہ "معارف اولیاء جلد ٥ دسمبر ٢٠٠٧- شمارہ ٤-محکمہ مذہبی امور و اوقاف حکومت پنجاب- لاہور. سے ماخوز)
ولیم جیمز لکھتے ہیں :
شموئلدرز نے غزالی کی خود نوشتہ سوانح عمری کا ایک حصہ فرانسیسی زبان میں منتقل کیا ہے. اس کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے (اردو ترجمہ) .
صوفی کا علم و عمل یہ ہے کہ خدا کے سوا ہر چیز سے دل کو الگ کیا جاۓ اور صرف خدا کی ذات و صفات پر غور کیا جاۓ. علم و عمل کے مقابلے میں یہ آسان ہے اس لیے میں نے کتابوں میں اس کا مطالعہ کیا اور جہاں تک کتابوں سے یا دوسروں سے سن کر یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے اس حد تک میں سمجھ گیا لیکن میں اس نتیجے پر پہنچا کہ تصوف کی اصلیت خاص قسم کے عمل کے بغیر واضح نہیں ہو سکتی. حال اور وجد و مستی اور روح کی قلبی ماہیت سب عمل کا نتیجہ ہیں. مثلاّ صحت اور سیری کی نسبت باتیں بہت کر سکتے  اور سن سکتے ہیں. ان کی علتوں  اور شرائط کا علمی طور پر احاطہ کر سکتے ہیں لیکن صحت کی کتاب پڑھ کر کوئی شخص تندرست نہیں ہو جاتا اور نہ ہی بھوکا انسان سیری کا حال سن کر سیر ہو سکتا ہے . اس طرح شراب کا کتابی علم کسی شخص میں نشہ نہیں پیدا کر سکتا .  شراب میں نشہ ہوتا  ہے ،مگر  کوئی شرابی نہ سکرکی منطقی تعریف جانتا ہے اور نہ شراب کی نسبت اس کو وہ علم ہوتا ہے جو طبیب کو ہے. تمام علائق و شہوات سے انقطاع کے بعد روح کی کیا کیفیت ہوتی ہے اس کا علم نہ کسی تحریر سے ہو سکتا ہے اور نہ کسی تقریر سے. فقط پارسائی میں ترقی کر کے خاص طریقوں سے ایک خاص حال تک پہنچنے کے بعد ہی انسان اس حقیقت سے آشنا ہو سکتا ہے.
روحانی سفر پر جانے سے پہلے  اپنے متعلقہ واقعات میں لکھتے ہیں "جب میں نے اپنی حالت پر غور کیا تو دیکھا کہ میں ہر طرف سے علائق دنیا سے پا بہ زنجیر ہوں اور نفسانی تحریکیں ہر طرف سے حملہ آور ہوتی ہیں. جو میں درس دیتا ہوں وہ بھی خدا کے نزدیک کوئی پاکیزہ شے نہ تھی کیونکہ میں نے دیکھا کہ میری علمی کوششیں شہرت و عظمت دنیوی کی خاطر تھیں  .میں بغداد کی بڑی درس گاہ میں بڑا امام اور معلم تھا. (نفسیات واردات روحانی -ص-٤٠١،٤٠٢-مجلس ترقی ادب لاہور)

امام غزالی کے روحانی تجربات کے اثرات .

اس روحانی سفر سے واپسی کے بعد آپ نے درس وتدریس کا شغل دوبارہ شروع کیا ،
امام غزالی نے فرمایا .
دنیا میں اکثریت شہوات کی ہے جن میں حیوانات و انسان مبتلا ہیں اور یہ مرتبہ انہیں(اہل بصیرت کو) زیب نہیں دیتا -اللہ روز جزا کا مالک ہے، اسی کے لیے دنیا کی بادشاہت ہے،وھی اس کا مالک ہے اور وھی خیر اور اعلیٰ ہے. ان (اہل بصیرت) لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے اس قول کا پردہ کھل گیا ہے.(اللہ ہی اچھا اور وھی باقی رہنےوالا ہے -القرآن-طہ:٧٣)-انہوں نے اپنا مقام یہاں منتخب کیا (سچی عزت کی جگہ بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب-القمر:٥٥)اور اسے اس مرتبہ پر ترجیح دی(آج جنتی لوگ مزے کرنے میں مشغول ہیں-یاسین-٥٥)-بلکہ انہوں نے ،لاالہ الا اللہ،کی حقیقت کا ادراک کر لیا. آدمی کے نفس نے جس کسی کا اسے غلام بنایا،وھی اس کا الہ اور معبود ہے.(کیا کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ -الفرقان:٤٣)-ہر نفس کا مقصود ہی اس کا معبود ہوتا ہے. رسول کریم(ص)نے فرمایا ،"دو بھیڑئیے ،بکریوں کے احاطہ میں اتنا فساد نہیں کرتے جتنا مسلمان کے دین میں مرتبہ و مال کی محبت فساد پیدا کرتی ہے "مگر  غافل لوگ بھیڑے اور شکار میں فرق نہیں کرتے اور ٹھنڈک اورتپش میں امتیاز نہیں کرتے. وہ ٹیڑھا راستہ منتخب کرتے ہیں اور اسے سربلندی سمجھتے ہے. رسول کریم(ص) نے ان  کو اس غلطی پر متنبہ کرتے ہویے فرمایا" ذلیل و خوار ہوا دینار کا غلام،ذلیل خوار ہوا درہم کا غلام"
ابن عساکر کے حوالہ سےپروفیسر ڈاکٹر محمد ماجد عرساں الکیلانی لکھتے ہیں.
ایسا لگتا ہے کہ زہد کے تجربے نے ان  کی شخصیت میں کامل انقلاب پیدا کر دیا-جب وہ نظامیہ بغداد میں ایک مذہبی عالم تھے تو ان  کے لباس اور سواری کی قیمت کا اندازہ پانچ سو دینار تھا. جب ان  پر زہد طاری ہوا تو اس کی قیمت کا اندازہ پندرہ قیراط تھا. جب طوس میں خلیفہ کے وزیر انو شیروان نے انکی زیارت کی تو غزالی نے اسے کہا.
"تمہارے وقت کا شمار ہو چکا ہے اور تو اجر پر رکھا گیا مزدور ہے. اپنے کام پر تیری حاضری میری زیارت سے بہتر ہے"
وزیر جب باہر آیا  تو کہتا تھا.
"لاالہٰ الا اللہ " یہ وہ شخص ہے جو ابتدائی عمر میں مجھ سے اپنے القاب کے ساتھ مزید لقب طلب کرتا تھا،سونا اور ریشم زیب تن کرتا تھا اور اب اس کا معاملہ اس حال کو پہنچ گیا ہے"
ابوالحسن عبد الغا فر  بن  اسماعیل الفارسی ان کی صفت ان الفاظ میں بیان کرتا ہے .
"میں نے ان کی کئی بار زیارت کی. میں اپنے دل میں وہ سب کچھ یاد کرتا تھا جو میں گزشتہ زمانہ میں ان کے متعلق جانتا تھا. یعنی لوگوں کے ساتھ بدخلقی،تکبر کی بنا پر ان پر نفرت و حقارت کی نظر،اپنی گفتگو،خیالات اور اور عبارت پر فخر اور جاہ و علو مرتبت کی طلب-اب وہ اس کی ضد ہو گئے ہیں (ابن عساکر -تبین کذب المفتری -ص-٢٩٤)
ابوالحسن عبدالغافرفارسی خطیب نیشا پور نے امام غزالی کی شام سے واپسی اور تدریس میں دوبارہ  مصروفیت کے بعد ان  کے مقام اور جدو جہد کو یوں بیان کیا ہے.
" شیر اپنی کچھار سے غائب تھا اور امر،قضائے الہی کے پردہ میں پوشیدہ تھا کہ اسے مبارک مدرسہ نظامیہ (اللہ اسے آباد رکھے) میں تدریس کا اشارہ ہوا. اس کے لیے حکام کے سامنے سر تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا مگر اس نے اس ہدایت کے اظہار کا قصد کیا جس میں وہ مشغول رہا تھا . جس چیز سے وہ الگ ہو چکا تھا، نیز طلب جاہ ،سرداروں سے وابستگی اور مخالفین سے حجت بازی کے جس طوق سے وہ آزاد ہو چکا تھا،اس کی طرف دوبارہ واپسی کی بجاۓ اس نے لوگوں کو نفع پہنچانے کا عزم کر لیا. اس کے خلاف کتنی آوازیں اٹھیں اور طعن و تشنیع کی گئی مگر اس نے نہ تو اس سے کچھ اثر لیا ،نہ طعن کرنے والوں کا جواب دیا اور نہ گر بڑ کرنے والوں کی عیب جوئی سے دل گرفتہ ہوا.(طبقات الشافعیہ حصہ ششم -ص-٢١٦ --بحوالہ عہد ایوبی کی نسل نو اور القدس کی بازیابی اردو سائنس بورڈ لاہور.)
اس ضمن میں ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی لکھتے ہیں. ان  کا طریق کار "پسپائی اور پلٹنا" کا اصول تھا. جو مختلف مذاہب اور اسلامی جماعتوں کے لیے مثال بن گیا.اس کے دو فائدے دیکھے گئے -پہلا، ان  لوگوں نے مذہبی اختلاف و نزاعات کو خیر باد کہہ کر اپنے"نفس خاصہ"کی طرف توجہ کی. جب انکا تزکیہ نفس ہو گیا تو وہ جدید معاشرہ کی طرف"پلٹ" آئے  تاکہ وہ اس میں تعاون و محبت کی نیت سےحصہ لیں، نہ کہ فرقہ بازی اور دنیوی مفاد کے لیے اسے ارزاں فروخت کرنے لگیں.اس طریقہ کی بدولت فقہاء اور صوفیا میں ایسے گروہ پیدا ہو گئے جن کا قوی رجحان اس ایمان کی طرف تھا کہ مذھبی فرقوں کی کتب کے بجاۓ قرآن و سنت سے جدوجہد اور فیصلوں کی کامیابی حاصل کی جاۓ.   
دوسرا یہ کہ امام غزالی کی کوششوں سے منحرف فکر کے رجحانات مثلاّ باطنیہ،فلاسفہ کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور عوام میں ان کی منڈی میں مندی آگئی اور بعد  میں وہ کساد اور سقوط کا شکار ہو گئے  .  
بعد میں آنے والے شیوخ پر آپ کا اثر نمایاں نظر آتا ہے. جیسا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی -رح- کے مواعظ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے عہد کی امراض کی تشخیص کرتے وقت آپ نے ان کے آغاز کے ضمن میں اس امر پر اعتماد کیا، جس پر امام غزالی نے کیا تھا اور اسے اسلامی معاشرہ میں فساد کا بنیادی سبب قرار دیا .اگاہ رہو! وہ ہے"شریعت کا سیاست کے محور کے گرد گھومنا" اور علماء کی حکام کے سامنے عاجزی اور خواہشات دنیا. 
اس ضمن میں حضرت جیلانی فرماتے ہیں .
بہت سے لوگوں کے لیے بادشاہ خدا بن گئے  ہیں. دنیا،دولت،عافیت اور قوت -خدا بن گئی ہے اور حکم چلاتی ہے.تم نے فرع کو اصل بنایالیا ہے ،رزق پانے والے کو رزاق ،غلام کو مالک،فقیر کو غنی، عاجز کو قوی اور مردہ کو زندہ-جب تو نے دنیا کے جابروں،فرعونوں ،بادشاہوں اور دولت مندوں کی تعظیم کی اور اللہ عزو جل کو بھلا دیا اور اس کی تعظیم نہ کی تو تو بتوں کا بندہ قرار پائے گا. جس کی تو تعظیم کرے،وھی تیرا بت ہے.(عبدالقادر- الفتح الربانی-مواعظ -٢٠ شعبان ٥٤٦-ہ/١١٥١ ع)


Thursday, May 24, 2012

"ربا" سود کے بارے میں--١

دور جہالت -صدر اسلام میں "ربا" کی تحقیق (١)
طلوع اسلام کے وقت عربوں کے رسوم و رواجات اور عادات کواسلامی شریعت میں "تشریعی مادہ" تصور کر لیا گیا مگر مفاسد کو دور بھی کیا گیا.اس لیے اسلامی شریعت کو سمجھنے سے پہلے وہاں کے کلی نظام کو پس منظر کے طور پر اپنے سامنے رکھ لینا ناگزیر ہے. بعض لوگوں کا خیال ہے جب شریعت اسلامیہ ہے تو اس پس منظر سے کیا مطلب ؟ یہ تصور درست نہیں اور اپنے مقصود تک پہنچنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے. عراق،یمن و شام میں رسول کریم(ص) کے اعلان نبوت کے وقت جو حالات تھے وہ بھی مدنظر رکھنے ہوتے ہے. لیکن ہم نے سہولت کی خاطر نیز طوالت سے بچنے کے لیے حجاز کے تین اہم مقامات--طائف،مکہ اور مدینہ  کا ذکر ضروری سمجھا ہے ،کیونکہ ہم نے ان کے معاشی نظام میں ربا یعنی سود کا عمل دخل اور اس کا مفہوم دیکھنا ہے .
طائف
طائف میں زراعت و تجارت اور صنعت و حرفت ترقی یافتہ تھی ،دیگر پیشوں کے علاوہ طب کا پیشہ بھی تھا حرث بن کلدہ الثقفی کاتعلق وہیں سے تھا . اس کے بارے میں ہم پہلے مندرجہ ذیل پوسٹ میں لکھ چکے ہیں  اسلامی فقہی مذاہب کا منبع ایک ہے - شریعت اسلامی -جس کی بنیاد....
http://talibhaq.blogspot.com
طائف میں انگور کی کثرت تھی ،یہی وجہ ہے کہ طائف میں باضابطہ شراب خانے بنے ہوتے تھے،یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عصری شراب خانوں کی طرح طائف کے ان شراب خانوں کی جانب سے عیاشیوں کے لیے عورتیں بھی فراہم کی جاتی تھیں.
 سودی کاروبار

مورخ بلاذری لکھتا ہے .کے "طائف کے لوگ (بلا کے) سود خوار تھے (فتوح البلدان)قبلہ ثقیف کے بعض لوگوں نے تو سودی کاروبار کو اپنا پیشہ ہی بنا لیا تھا. ان کا کاروبارصرف طائف تک محدود نہ تھا. بلکہ مکہ والوں کو بھی سودی قرض دیا کرتے تھے.اور بلعموم سود بشکل زر و اشیا وصول کرتے تھے. چنانچہ"ثقیف کے لوگ جاہلیت میں بنو مغیرہ(قریش مکہ کی ایک شاخ) کو قرض دیا کرتے تھے. جب مدت ادائیگی پہنچتی تو وہ (بنو مغیرہ) کہتے کہ ہم مزید سود دیں گے. تم ہمیں مزید مہلت دے دو.(تفسیر طبری الجزالربع--آیت-لا تا کلو الربواضعافا-الخ -بروایت ابن جریح -بحوالہ اسلام کے معاشی نظریے از  ڈاکٹر محمّد یوسف الدین )

سودی کاروبار کا طریقہ :- جاہلیت میں ثقیف کے سود لینے کا یہ طریقہ تھا کہ یہ لوگ کسی شخص کو کسی مدت تک کے لیے قرض دیتے تھے،جب قرض کی ادائی کا وقت آتا تو قرض خواہ مقروض سے کہتا کہ  یا تو میری رقم ادا کرو دو یا اس میں زیادتی قبول کرو. اگر مقروض کے پاس مال ہوتا تو وہ ادا کردیتا ورنہ زیادتی کو قبول کر کے ایک سال کی اور مہلت لے لیتا. چنانچہ اگر ایک سال کی عمر والی اونٹنی واجب الادا ہوتی تو دوسرے سال دو سال عمر والی اونٹنی مقروض پر واجب الادا ہوتی پھر تسرے سال تین سال عمر والی اونٹنی طلب کرتا . اگر اس کے بعد نہ دیتا تو چار سالہ اونٹ طلب کرتا. غرض افزائش زیادتی کا یہ سلسلہ مہلتوں کی زیادتی کے ساتھ ساتھ یوں ہی بڑھتا رہتا تھا. 
زر میں بھی یہی طریقہ مروج تھا.یعنی مقروض مدت مقررہ پر رقم ادا نہ کر سکتا تو دوسرے سال دوگنی رقم وصول کرتا. چنانچہ اگر سو ١٠٠ واجب الادہ ہوتے تو دوسرے سال دو سو٢٠٠ کی رقم مقروض پر واجب ا لادا  ہو جاتی تھی،پھر بھی ادا نہ  کرتا تو تیسرے سال چارسو  ٤٠٠. غرض یوں ہی ہر سال کی مہلت سود کےاضافے کی وجہ بنتی جاتی تھی.(حوالہ بالا)

نبی کریم (ص)نے طائف کے باشندون سے جو معاہدہ کیا تھا، اس میں سود نا لینے کے متعلق بھی معاہدہ کی دستاویز میں تذکرہ تھا. بلاذری کے مطابق "سود اور شراب سے انکو خصوصیت کے ساتھ روکنے کا سبب یہ تھا کہ یہ لوگ بلا کے سود خوار تھے. بلاذری نے تو نہیں،البتہ ان کے استاد ابو عبید قاسم بن سلام المتوفی ٢٢٤ نے اپنی کتاب"کتاب الاموال" میں معاہدہ کے پورے متن کو بھی نقل کیا ہے،سود سے متعلق دستاویز کے یہ الفاظ ہیں .

وما کان لھم فی الناس من دین فلیس علیھم الا راسہ( لوگوں کے ذمہ ان کا جو قرض واجب الوصول ہے،اس میں سے ان کو (ثقفیوں کو) صرف رس المال(اصل کپیٹل ) ملے گا.(کتاب الاموال- پیرا ١٩٢)

مکّہ :- مکہ کے قرب و جوار میں زراعت نہیں ہو سکتی تھی جنگلات بھی نہیں تھے معدنیات بھی نہیں تھے. اس لیے وہاں خام پیدوار کی ہمیشہ سے کمی تھی. اس کا اثر وہاں کی صنعت اور حرفت پر بھی مضر پڑا . چنانچہ خام پیدوار نہ ہونے سے صنعت و حرفت نے وہاں ترقی نہیں کی. صرف دو ایک صنعتیں وجود میں آئیں،خاص کر دباغت کیونکہ اونٹ اور بکریوں کی کھالیں وہاں بہ آسانی فراہم ہو سکتی تھیں .خدا  تعالیٰ نے بھی مکہ کی زمیں کو" وادی غیر ذی زرع -بن کھیتی والی زمیں ، سے موسوم کیا ہے.اسی لیے مکہ کے بڑے لوگ تجارت کے لیے دو سفر کرتے تھے اور اپنے شہر والوں کے لیے ضروریات زندگی کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے لے کر آتے تھے.اور ان سفروں سے نفع کماتے تھے .

سودی کاروبار :- ملک شام کو کاروانوں کی روانگی کا وقت آتا  تو دینار کی طلب بڑھ جاتی .مکہ کے تاجر موجودہ زمانے کے ساہوکاروں سے کچھ مختلف نہ تھے . وہ اولا تو سکہ  کی ہی  تجارت کرتے ،موقع دیکھ کر وہ اپنے سرمایا کو کاروبار میں لگاتے. اس طرح وہ بڑ ے بڑ ے  کاروانوں کے کاروباروں اور تاجروں کے لیے سرمایہ فراہم کرتے نیز جنھیں کاروبار شروع کرنے کے لیے سرمایہ  کی ضرورت ہوتی تھی. ان کے لیے بھی رقومات فراہم کرتے .


مکہ ہنڈی گھر اور بنک کاری کا شہر تھا .اس لیے مکہ میں اس قسم کے کاروبار قائم ہونے سے اسی قسم کے رسم و رواج اور ادارے نمودار ہوتے ،جو اس قسم کے کاروبار سے ظہور میں آیے ہیں. بعض وقت یہ ربوا یا سود تھا جو اپنی تمام برائیوں کا حامل تھا. دینار کے بدلے دینار،درہم کے بدلنے درہم یعنی صد فی صد ١٠٠/١٠٠ سود لیا جاتا تھا . جب قرآن نے اس کو حرام قرار دیا تو قریش نے حجت پیش کی کہ یہ بھی تو ایک تجارت ہے .دیکھنے اصل آیت " قالو اانما البیع مثل الربوا -الخ... وہ کہتے ہیں کہ سود تو تجارت کے جیسا ہی ہے،جہاں اصل کو کرایے پر چلایا جاتا ہے.(انسائیکلو پیڈیا آف اسلام عنوان مکہ  بحوالہ اسلام کے معاشی نظر یے )


سودی لین دین کا طریقہ :-جاہلی عرب مدت معینہ کے لیے قرض دیتے، چنانچہ جب قرض کی ادائی کا زمانہ آتا تو قرض خواہ مقروض سے قرض یا سود کا مطالبہ کرتا. اب اگر وہ قرض ادا نہیں کر سکتا تو اس پر قرض کو دوگنا کر دیا جاتا.مثلاّ اگر ایک سال کی اونٹنی ہوتی تو اس کو دو سال کی اور اگر ایک پیمانہ غلہ ہوتا تو اس کو دو پیمانہ کر دیا جاتاتھا.( تاریخ تشریع السلامی لعلامتہ-محمّد خضری)
زمانہ جاہلیت میں کچھ مدت کے لیے ایک شخص کا کچھ مال دوسرے پر واجب الدا ہوتا جب ادائیگی کا زمانہ پہنچتا تو قرض خواہ دریافت کرتا کہ آیا تو مال ادا کرتا ہے یا سود دیتا ہے؟ پس اگر وہ ادا کر دیتا تو اس کو لے لیتا ورنہ بصورت دیگر مدت بڑھا کر زیادتی طلب کرتا.(تفسیر طبری ،محولہ بالا،آیت مذکورہ  لا تا کلوا الربوا-الخ-  ) مورخ طبری نے اپنی تفسیر میں مزید  تفصیل سے زمانہ جاہلیت کے سودی لیں دین کے طریقے کو بیان کیا ہے. یہ بالکل  وہی طریقے ہیں  جو طائف کے ذیل میں بیان ہو چکے ہیں. 
ربوا کی دو قسمیں ہیں(١) ربوا نسیہ (ادھار) اور(٢) ربوالفضل(نقد). ربوا النسیہ (ادھار) جو جاہلیت میں مشہور اور رائج تھا یہ تھا کہ لوگوں کو مال دیتے اور ہر مہینہ  کچھ مقررہ سود لیتے اور راس المال(اصل) طلب کرتے. اگر ادائیگی میں لیت و لعل کی جاتی تو رقم اور مدت میں اضافہ کر دیتے ،اور اس کو ربوا کہتے تھے .اور ربوا نقد یہ تھا کہ شے کو شے کے بدلے مثلاّ گیہوں کو گیہوں کے بدلے یا جو کو جو کے بدلے نفع کے ساتھ فروخت کرتے.(تفسیر طبری -حوالہ بالاسلام کے معاشی نظریے -جلد-١-ذیل سودی لیں دین کا طریقہ -مکہ )


سود کس بات کا معاوضہ تھا.:-عرب کے معمولات ،عادات اور احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو لوگ ادائی قرض کی استطاعت نہیں رکھتے تھے .ان کے لیے قرض کی جو مدت مقرر کی جاتی تھی،سود اسی مدت انتظار کا معاوضہ تھا.(محمّد الخضری کتاب مذکورہ)چنانچہ بیہقی کی روایت سے پتہ چلتا ہے کی"کسی شخص کا کسی پر قرض ہوتا. مقروض قرض خواہ سے کہتا کہ میں تجھے اتنا زیادہ دوں گا تو مجھے مہلت دے(السنن الکبریٰ -ابواب الربوا -کتاب البیوع- اسلام کے معاشی نظریے )
زمانہ جاہلیت میں کچھ مدت کے لیے ایک شخص کا کچھ مال دوسرے پر واجب الادا ہوتا،جب ادائیگی کا زمانہ آ پہنچتا تو قرض خواہ دریافت کرتا کہ آیا تو ادا کرتا ہے یا سود دیتا ہے؟  پس اگر وہ ادا کر دیتا تو اس کو لے لیتا ورنہ بصورت دیگر مدت بڑھا کر زیادتی طلب کرتا.(السنن الکبریٰ)مورخ طبری لکھتے ہیں کہ" کسی شخص پر کسی کا مال ایک مدت تک کے لیے رہتا،جب مدت ادائیگی آ پہنچتی تو قرض خواہ مقروض سے مال طلب کرتا. مقروض کہتا کے تیرے قرض کو ادا کرنے کی مہلت بڑھا دے میں تیرے مال پر زیادتی کرونگا. وہ دونوں ایسا ہی کرتے اور یہی سود در سود تھا.


جس ربوا سے خدا نے منع کیا وہ یہ تھا کہ کسی شخص پر کسی کا سود ہوتا تھا وہ کہتا کہ میں تجھے اتنا اتنا دونگا تو مجھے مہلت دے تو وہ مہلت دے دیتا.(تفسیر طبری الجزا الربع -ص ٥٥ -آیت - لا تا کلو ا الربوا اضعافا -الخ-بحوالہ اسلام کے معاشی نظریے حوالہ بالا)
المختصر ایک فریق انتظار کرتا اور مدت ادائیگی میں توسیع دے دیتا اور دوسرا فریق اس انتظار کشی کے معاوضے میں مال واجب الادا میں زیادتی کر دیتا." مدت ادائیگی میں مقروض قرض خواہ کو کہتا کہ مدت میں توسیع دیدے میں مال میں اضافہ کر دونگا( تفسیر خازن)---ماسوا اس کے جاہلیت کے ساہوکار---جیسا کہ آجکل بھی ہندوستان میں ہوتا ہے---قرض دیتے وقت ابتداء سے سود مقرر کرتے تھے. "وہ اپنا پیسہ دوسروں کو اس شرط پر قرض دیتے تھے کہ ہر مہینے میں مقدار معین(سود) لیں گے اور اصل رقم جوں کی توں برقرار رہے گی پھر جب میعاد قرض گزر جاتی تو قرض خواہ مقروضوں سے اپنی اصل رقم کا مطالبہ کرتے. اگر اس وقت قرضہ ادا نہ کر سکتے تو قرض خواہ اپنے حق میں اضافہ اور مدت میں توسیع کر دیتے. الغرض زمانہ جاہلیت میں لوگ جس سود کا آپس میں کاروبار کرتے تھے وہ یہی سود تھا (تفسیر کبیر رازی-اسلام کے معاشی نظریے )


سود کا کاروبار زمانہ جاہلیت میں بھی حرام اور اس سے ملنے والی سودی رقم بھی ناپاک سمجھی جاتی تھی ،کیونکہ ابو وھب نے کہا تھا کہ کعبہ کی تعیمر میں صرف اپنی پاک کمائی لگا نا ،کسی کسبی کا بھاڑا،سود کا روپیہ ،ظلم کر کے حاصل کیا ہوا روپیہ نا لگانا .(تاریخ طبری-اسلام کے معاشی نظریے )

مکہ کے اصلدار اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ  دولت سے مزید دولت پیدا کی جا سکتی ہے.  --زر اور سکوں میں درہم و دینار (چاندی اور سونے کے سکے، سلاخیں اور ڈھیلے ) استعمال کرتے تھے. جاہلیت میں اہل مکہ کے پاس ہرقل کے دینار بھی آتے تھے.اور ایرانیوں کے دراہم بغلیہ  بھی ،عرب ان سکوں سے وزن کے اعتبار سے تول کر خرید و فروخت کرتے تھے.اہل فارس کے نظم و نسق بگڑنے سے ان کے سکّے بھی کھوٹے ہو گے تھے مگر کھوٹ نظر انداز ہونے کی وجہ سے معاملات لین دین میں کھرے کے مساوی چلتے تھے.


تاریخی اندراجات سے پتہ چلتاہے کہ کارو بار میں لگے ایک دینار کےبدلے ایک دینار(نفع) لیا جاتا تھا   مورخ لکھتا ہے کہ  جنگ بدر والے ابو سفیان اور قریش کے قافلے میں شریک لوگوں کا مال فروخت ہو کر سونا جمع ہوا اور ان  کو  اصل سرمایہ دے دیا گیا اور نفع نکال لیا گیا    (کاروبار میں نفع نکالنے کا) معمول یہ تھا کہ ایک دینار پر ایک دینار(نفع) لیتے تھے (طبقات ابن سعد-اسلام کے معاشی نظریے-جلد-١- ص-٦٨ -ذکر ابوسفیان کا قافلہ جنگ بدر والا ) 

سودی کاروبار مدینہ میں:- یہودی سرمایا دار مدینہ کی آبادی میں بسے ہوتے تھے،اور مدنی کسانوں کو قرض دیا کرتے تھے. مدنے میں سود کا بہت رواج تھا. چانچہ عید بن ابی بروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ"جب میں مدینہ گیا تو عبدللہ بن سلام سے ملا--- انہوں نے کہا تم ایک ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں سود کا بہت رواج ہے.(بخاری-مناقب عبدالله بن سلام)



مکے اور طائف میں سودی کاروبار کا جو طریقہ رائج تھا ،مدینے میں بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا." جاہلیت میں سود اس اس طور پر ہوتا تھا کہ ایک شخص کا قرض میعادی دوسرے پر ہوتا تھا. جب معیاد گزر جاتی تو قرض خواہ قرضدار سے کہتا کہ یا تو تو میرا قرض ادا کر یا سود ادا کر. اس نے قرض ادا کیا تو بہتر نہیں تو قرض خواہ اپنا قرض بڑھا دیتا اور پھر مدت میں توسیع دیدیتا(مو طا امام مالک ).
امام مالک (المتوفی ١٧٩ھ) عموما مدینہ اور اہل مدینہ کے ہی رواجات اور واقعات خاص طور پر قلمبند کرتے تھے. اس لیے اغلب ہے کہ مذکورہ بالا طریقہ مدینہ سے ہی متعلق ہو.


رہن کے طریقے :- عموماّ جب کوئی شخص مدینہ میں کسی سے کچھ شے ادھار لیتا تو رقم کے ادا ہونے تک اپنی کوئی چیز ساہوکار کے ہاں رہن کروا  دیتا تھا، چانچہ" حضرت عائشہ(رض) فرماتی ہیں کہ  نبی کریم(ص) نے ایک مدت کے وعدہ پر کچھ غلہ ایک یہودی سے مول لیا تھا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی کرا دی تھی .بعض حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ مدینہ میں اسلام سے پہلے بیوی بچے بھی رہن کرے جا سکتے تھے -


امانت- مدنی لوگ امانت میں خیانت کو بہت برا گردانتے تھے.(اسلام کے معاشی نظریے --از-- محمّد یوسف الدین .ایم .اے،پی -ایچ -ڈی(عثمانیہ)-صفحہ -٩٦-٩٧ -الائیڈ بک کمپنی - جامعہ کراچی پاکستان)


لغات القرآن -دار الاشاعت-کراچی -صفحہ ٤٨ پر ہے. باجماع امت "ربا" دو قسم کا ہے -ایک حسی جس کو کتاب اللہ نے "لاتاکلو الربوا ا اضعا مضاعفہ--الخ "میں بیان فرمایا ہے ،اور حدیث صحیح الفضل ربا " میں اسی حسی ربا کو بیان کیا گیا ہے،اور حدیث ....... ا لا مثلا بمثل-الخ(بروایت مسلم) اور حدیث لاتاخذوا  الدینار بالدینارین و لا درھم بلدرھمین ... الخ(طبرانی عن ابن عمر)بھی بحق ربا کتاب اللہ کی تفسیر ہے اور تفسیر اضعافا  کے تحت داخل ہے . حدیث بخاری بھی ربا حسی کی مفسر ہے "الذھب بالزھب مثلاّ بمثل والورق بالورق مثلاّ بمثل (رواہ البخاری)" یعنی فضل ربا ہے. پس اس حسی ربا میں شارع نے لغوی معنی میں اور شرعی معنی میں مغایرت پیدا نہیں فرمائی ہے پس حسی ربا کی بھی وھی تعریف ہے جس کی عربی عبارت یہ ہے " هوالفضل الخالی عن العوض البشرط فی ا لبیع..الخ"(لغات القرآن-دار الاشاعت-ص-٤٨)
دوسرا ربا حکمی ہے کہ حسا تفضل عوضین میں نہیں ہے لیکن شارع نے سد الباب الربا  صورت تماثل کو بھی ربا حسی کے حکم میں قرار دے دیا ہے جبکہ معاوضہ یدابید نہ ہو کیونکہ مادہ ربا کا تاخیر و تاجیل ہے اور بغیر تاخیر کے فضل غیر متعامل ہے، اسی معنی پر محمول ہے،حدیث مسلم کی" لا ربا فیما کان یدا بید " فضل حسی کا دروازہ اسی ربا حکمی سے مفتوح ہے کہ تجارت حاضرہ میں فضل حسی عادتا نہ ممکن ہے،اسی ربا حکمی کو شارع  نے حدیث- نہی النبی (ص)عن بیع دینار  اور حدیث الذھب بالورق ربا لاھاء ولاءھا ، الحدث فی الاشیاء الستہ المنصوص  ،   ---( اگر سمجھ نہ آئے تو احادث کا اصل متن دیکھیں کیونکہ یہاں ٹائپنگ کا مسلہ ہے،عربی زبان کے الفاظ واضح  نہیں لکھے جار ہے، انہیں یہاں صرف اشارہ سمجھیں )   میں بیان فرمایا ہے اس ربا شرعی پر لغوی ربا صادق نہیں ہے. 


ایام جاہلیت میں ربا کا جس طور معمول تھا اس کے مطلق امام مالک،زید بن اسلم سے جو مشہور 
 تابعی ہیں، ناقل ہیں کہ انہوں نے بیان کیا جاہلیت میں،ربا یہ تھا کہ ایک شخص کا دوسرے شخص کے ذمہ ایک مدت میعنہ کے لیے حق(واجب الادا) ہوتا پس جب مدت پوری ہو چکتی تو کہتا کہ تو ادا کرتا ہے یا زیادہ کرتا ہے، اب اگر وہ ادا کر دیتا تو اس کو لے لیتا ورنہ اپنا حق زیادہ کر دیتا اور مہلت میں تاخیر کر دیتا.
امام طبری نے عطا اور مجاہدسے اسی کے قریب قریب روایت کیا ہے نیز قتادہ سے نقل کیا ہے کہ جاہلیت میں ربا کا یہ دستور تھا کہ ایک شخص مدت معینہ پر سودا بیچتا ،جب مدت پوری ہو جاتی اور خریدار کے پاس ادا کرنے کیلئےکچھ نہ ہوتا تو یہ رقم زیادہ کر دیتا اور مدت کو موخر کر دیتا.


---جاری ہے---  http://talibhaq.blogspot.com


Thursday, April 26, 2012

القرآن -ا لانفال ٦٥-کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے.

"تحریرو تقریر " کا عمل تبھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے،  جب اس کا مقصد اور طریقہ بھی درست ہو، بصورت دیگر اس کے مفاسد بہت زیادہ ہیں ، شریعت اسلامیہ میں یہ اصول ہے کہ جس  کام کے نقصانات فائدوں سے زیادہ ہوں وہ ممںوع ہے . یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ ہم کب سے "خطیبانہ یلغار " کی زد میں ہیں - درخت اپنے پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے . ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مذہبی اور سیاسی جتماعات میں کیا کچھ کہا جاتا ہے اور عملی طور کیا ہوتا ہے.  اس مرض کا شکار ہم،یعنی

Saturday, April 21, 2012

کن فیکوں --تکوین کائنات .Big Bang

کن فیکوں ---مقام تکوین کائنات "بے مقام" کائناتوں کا کچھ بھی مطلق نہیں اضافی ہے ......مگر مطلق ہی مطلق ہے --------

کائنات کا آغاز کب ہوا، اس بارے میں قیاس آرئیاں ہوتی رہی ہیں ،مگر اب ریاضی کی مدد سے اس بات پر اتفاق را ے ہے کہ ہماری کائنات آج سے تیرہ ارب ستر کروڑ (٣،٧ ارب)  یا پندرہ ارب سال پہلے ایک بہت بڑے د ھما کے سے وجود میں آی .- وہ مقام جہاں پر یہ دھماکہ ہوا پلانک لینگتھ کے نام سے جانا جاتا ہے. بیسویں صدی کے

Thursday, April 19, 2012

Khawaja Ghulam Fareed (RA).: The Style...

Khawaja Ghulam Fareed (RA).: The Style...: ایہے ناز ادا سانولڑے دے ھن باعث عشق اولڑے دے گےویلھے بھاگ سولڑے دے اے دورے درد کللڑے دے کُل کاروں عشق فرید کیتا گھر باروں برھو...

Wednesday, April 4, 2012

مثنوی مولانا رومی (رح) اور جبر و اختیار کی معنویت

دنیا کی معلوم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ "جبر و اختیار" کا مسلہء ہر دور میں کسی نہ کسی طرح زیر بحث رہا ہے ،اور اس طرح ہر دور کے اہل علم ،اس پر گفتگو کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہے.یہاں ہم مولانا رومی(رح) ،جن کا کلام اسرار و رموز کا ایک خزینہ اور معرفت و عرفان کا ایک گنجینہ ہے ،کے حوالہ سے اس بابت مختصرسا مضمون لکھنے کی کوشسش کرتے ہیں. جبرو قدر ،قضا و قدر 
وغیرہ  کے حوالے سے ضمنی طور پر ہم ،کشف المحجوب ،اور حضرت جیلانی (رح)

Tuesday, March 27, 2012

آزادی کے شہیدوں کے نام--.23.03.2012

تو حسن حقیقی ہے ،تجھی پہ انحصار کرتے ہیں               
تیرا حسن آفاقی  ہے(١)، اسی پہ اعتبار کرتے ہیں 

نظم ہے بجانب   اثبات ،  قیام اثبات  ہی  ھو   گا 
تیرا  اذن  باقی  ہے، اسی  کو  شمار  کرتے ہیں 

"جہاں تم ھو  وہیں میں ھوں"(٢)، ہے حکم  تاباں 

Sunday, March 25, 2012

کائنات کے پارٹیکلز اور شعر - ایک موازنہ

ہم دیکھتے ہیں، موجودہ دور میں زند گی کے ھر شعبے میں علوم و وظائف کی توجہات پر سائنسی وضاحتوں کی چھاپ نظر آتی ہے."دی کوسموس کوڈ" کا مصنف  لکھتا ہے کہ .    
کائنات کے بنیادی اجزاء حروف تہجی کے مماثل ہیں . ان حروف (مراد پارٹیکلز) کے ارتباط سے الفاظ (مراد ایٹم ) بنتے ہیں. یہ الفاظ اپنے مخصوص لسانی قواعد کے تا بع  ہو کر جملے (مراد سالمے ) بناتے ہیں. جلد ہی کتابیں اور لا ئبریریاں وجود میں آ جاتی

Tuesday, March 20, 2012

ہند کے تمدن پر اسلامی اثرات- بابا گرو نانک کے حوالے سے .Influence of Islam on Indian Culture

In the"Kalam-e-Wadanyat" by Baba Guro Nanak (A famous book of Sikh Religion"Granth Sahib") there are about 112 Baits by  Baba Farid(d-670A.H), reported to have been included along with other 17 Religious poets and Leaders. Baba Farid is the most renowned Chishti