Sunday, July 22, 2012

حضرت امام غزالی -رح- کا صوفیانہ سفر اور اس کے اثرات.

AL-GHAZALI(D-505 A.H-1111 AC)-HIS SPIRITUAL JOURNEY AND EXPERIENCE. Al-ghazali has spent more than 10 years to find the secrets of spirit in the field of Islamic Sufism. After completing his said journey and had written his findings in his  AUTOBIOGRAPHY . He writes that: Right from my early age. I had the thirst of unveiling and discovering the reality of matters or events. My this habit was an integral part of my natural instinct endowed by Allah. My determination and endeavours had no concern with it.------He declared that the Friends of Allah are only on the Right Way.
امام غزالی -رح- (م-٥٠٥ ہ ) کا شمار ایسے علماۓ اسلام میں ہوتا ہے جنہوں نے تصوف اور روحانی تجربات کوقریب قریب  سائنٹفک اصولوں اور طریقوں پر پرکھنے کی کوشش کی اوراپنی  عمر کا بیشتر حصہ روحانی مشقوں پر صرف کیا، الغزالی اس سلسلہ میں  مختلف علاقوں بشمول شام وغیرہ کے سفر پر رہے ،  اوران مکاشفات اور تجربات کے بعد  اپنی کتاب "المنقذ من الضلال " لکھی آپ   فرماتے ہیں .
" دس برس اسی حالت میں گزر گئے،ان  تنہایوں میں مجھے جو انکشافات ہوئے اور جو کچھ  مجھے حاصل ہوا، اس کی تفصیل اور اس کا استقصاء تو ممکن نہیں، لیکن ناظرین کے نفع کے لیے اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے یقینی طور پر معلوم ہو گیاہے کہ صوفیاء ہی اللہ کے راستے کے مالک ہیں ،ان کی سیرت بہترین سیرّت،ان کا طریق سب سے زیادہ مستقیم اور ان کے اخلاق سب سے زیادہ تربیت یافتہ اور صحیح ہیں. اگرکوئی عقلاء کی عقل ،حکماء کی حکمت اور شریعت کے رمز شناسوں کا علم مل کر بھی ان کی سیرت و اخلاق سے بہتر لانا چاہے تو ممکن نہیں، ان کے تمام ظاہری اور باطنی حرکات وسکنات، مشکواة نبوت سے ماخوز ہیں اور نور نبوت سے بڑھ کر روئے زمین پر کوئی نور نہیں جس سے روشنی حاصل  کی جاۓ"
یہ ضیف العقل لوگوں کی عادت ہے کہ حق کو لوگوں کی نسبت سے پہچانتے ہیں،لوگوں کو حق کی وجہ سے نہیں،اور عقل مند آدمی امیرالمومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتا ہے، آپ نے فرمایا.
" حق و راستی آدمیوں سے نہیں پہچانی جاتی، تم پہلے حق کو پہچانو! پھر اہل حق کو بھی پہچان لو گے"
عاقل پہلے حق کی معرفت حاصل کرتا ہے پھر نفس قول کی طرف متوجہ ہوتا ہے. اگر وہ حق ہوتا ہے تو اس کو تسلیم کر لیتا ہے خواہ اس کا قائل اہل باطل میں سے ہو یا اہل حق میں سے. بلکہ وہ گمراہ لوگوں کے اقوال سے حق و راستی چن کر الگ کرنے کا شائق ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سونے کے ساتھ مٹی ملی رہتی ہے اور صراف کے لیے کوئی خطرے کی بات نہیں اگر وہ قلب ساز کی تھیلی میں ہاتھ ڈال دے. کیونکہ وہ اپنی بصیرت سے کام لے کر زر خالص کو کھوٹے اور جعلی سکوں میں سے نکال لیتا ہے. لیکن بصیرت سے خالی (سادہ لوح) دیہاتی کو قلب ساز سے معاملہ کرنے میں روکنا چاہیے .
کامل پیراک کے سوا بیوقوف آدمی کو ساحل سمندر پر چہل قدمی سے منع کرنا چاہیے ، چھوٹے لڑکے کو سانپ چھونے  سے روکنا چاہیے نہ کہ ماہر سپیرے کو. اور میرے نزدیک کثرت ایسے(ناداں)  لوگوں کی ہے جو (بزعم خود)اپنے آپ کو عاقل اور ماہر گردانتے ہیں (اور سمجھتے ہیں کہ)حق و باطل کی تمیز میں اور ہدایت و گمراہی کے امتیاز میں انہیں کمال حاصل ہے.(مجلہ "معارف اولیاء جلد ٥ دسمبر ٢٠٠٧- شمارہ ٤-محکمہ مذہبی امور و اوقاف حکومت پنجاب- لاہور. سے ماخوز)
ولیم جیمز لکھتے ہیں :
شموئلدرز نے غزالی کی خود نوشتہ سوانح عمری کا ایک حصہ فرانسیسی زبان میں منتقل کیا ہے. اس کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے (اردو ترجمہ) .
صوفی کا علم و عمل یہ ہے کہ خدا کے سوا ہر چیز سے دل کو الگ کیا جاۓ اور صرف خدا کی ذات و صفات پر غور کیا جاۓ. علم و عمل کے مقابلے میں یہ آسان ہے اس لیے میں نے کتابوں میں اس کا مطالعہ کیا اور جہاں تک کتابوں سے یا دوسروں سے سن کر یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے اس حد تک میں سمجھ گیا لیکن میں اس نتیجے پر پہنچا کہ تصوف کی اصلیت خاص قسم کے عمل کے بغیر واضح نہیں ہو سکتی. حال اور وجد و مستی اور روح کی قلبی ماہیت سب عمل کا نتیجہ ہیں. مثلاّ صحت اور سیری کی نسبت باتیں بہت کر سکتے  اور سن سکتے ہیں. ان کی علتوں  اور شرائط کا علمی طور پر احاطہ کر سکتے ہیں لیکن صحت کی کتاب پڑھ کر کوئی شخص تندرست نہیں ہو جاتا اور نہ ہی بھوکا انسان سیری کا حال سن کر سیر ہو سکتا ہے . اس طرح شراب کا کتابی علم کسی شخص میں نشہ نہیں پیدا کر سکتا .  شراب میں نشہ ہوتا  ہے ،مگر  کوئی شرابی نہ سکرکی منطقی تعریف جانتا ہے اور نہ شراب کی نسبت اس کو وہ علم ہوتا ہے جو طبیب کو ہے. تمام علائق و شہوات سے انقطاع کے بعد روح کی کیا کیفیت ہوتی ہے اس کا علم نہ کسی تحریر سے ہو سکتا ہے اور نہ کسی تقریر سے. فقط پارسائی میں ترقی کر کے خاص طریقوں سے ایک خاص حال تک پہنچنے کے بعد ہی انسان اس حقیقت سے آشنا ہو سکتا ہے.
روحانی سفر پر جانے سے پہلے  اپنے متعلقہ واقعات میں لکھتے ہیں "جب میں نے اپنی حالت پر غور کیا تو دیکھا کہ میں ہر طرف سے علائق دنیا سے پا بہ زنجیر ہوں اور نفسانی تحریکیں ہر طرف سے حملہ آور ہوتی ہیں. جو میں درس دیتا ہوں وہ بھی خدا کے نزدیک کوئی پاکیزہ شے نہ تھی کیونکہ میں نے دیکھا کہ میری علمی کوششیں شہرت و عظمت دنیوی کی خاطر تھیں  .میں بغداد کی بڑی درس گاہ میں بڑا امام اور معلم تھا. (نفسیات واردات روحانی -ص-٤٠١،٤٠٢-مجلس ترقی ادب لاہور)

امام غزالی کے روحانی تجربات کے اثرات .

اس روحانی سفر سے واپسی کے بعد آپ نے درس وتدریس کا شغل دوبارہ شروع کیا ،
امام غزالی نے فرمایا .
دنیا میں اکثریت شہوات کی ہے جن میں حیوانات و انسان مبتلا ہیں اور یہ مرتبہ انہیں(اہل بصیرت کو) زیب نہیں دیتا -اللہ روز جزا کا مالک ہے، اسی کے لیے دنیا کی بادشاہت ہے،وھی اس کا مالک ہے اور وھی خیر اور اعلیٰ ہے. ان (اہل بصیرت) لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے اس قول کا پردہ کھل گیا ہے.(اللہ ہی اچھا اور وھی باقی رہنےوالا ہے -القرآن-طہ:٧٣)-انہوں نے اپنا مقام یہاں منتخب کیا (سچی عزت کی جگہ بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب-القمر:٥٥)اور اسے اس مرتبہ پر ترجیح دی(آج جنتی لوگ مزے کرنے میں مشغول ہیں-یاسین-٥٥)-بلکہ انہوں نے ،لاالہ الا اللہ،کی حقیقت کا ادراک کر لیا. آدمی کے نفس نے جس کسی کا اسے غلام بنایا،وھی اس کا الہ اور معبود ہے.(کیا کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ -الفرقان:٤٣)-ہر نفس کا مقصود ہی اس کا معبود ہوتا ہے. رسول کریم(ص)نے فرمایا ،"دو بھیڑئیے ،بکریوں کے احاطہ میں اتنا فساد نہیں کرتے جتنا مسلمان کے دین میں مرتبہ و مال کی محبت فساد پیدا کرتی ہے "مگر  غافل لوگ بھیڑے اور شکار میں فرق نہیں کرتے اور ٹھنڈک اورتپش میں امتیاز نہیں کرتے. وہ ٹیڑھا راستہ منتخب کرتے ہیں اور اسے سربلندی سمجھتے ہے. رسول کریم(ص) نے ان  کو اس غلطی پر متنبہ کرتے ہویے فرمایا" ذلیل و خوار ہوا دینار کا غلام،ذلیل خوار ہوا درہم کا غلام"
ابن عساکر کے حوالہ سےپروفیسر ڈاکٹر محمد ماجد عرساں الکیلانی لکھتے ہیں.
ایسا لگتا ہے کہ زہد کے تجربے نے ان  کی شخصیت میں کامل انقلاب پیدا کر دیا-جب وہ نظامیہ بغداد میں ایک مذہبی عالم تھے تو ان  کے لباس اور سواری کی قیمت کا اندازہ پانچ سو دینار تھا. جب ان  پر زہد طاری ہوا تو اس کی قیمت کا اندازہ پندرہ قیراط تھا. جب طوس میں خلیفہ کے وزیر انو شیروان نے انکی زیارت کی تو غزالی نے اسے کہا.
"تمہارے وقت کا شمار ہو چکا ہے اور تو اجر پر رکھا گیا مزدور ہے. اپنے کام پر تیری حاضری میری زیارت سے بہتر ہے"
وزیر جب باہر آیا  تو کہتا تھا.
"لاالہٰ الا اللہ " یہ وہ شخص ہے جو ابتدائی عمر میں مجھ سے اپنے القاب کے ساتھ مزید لقب طلب کرتا تھا،سونا اور ریشم زیب تن کرتا تھا اور اب اس کا معاملہ اس حال کو پہنچ گیا ہے"
ابوالحسن عبد الغا فر  بن  اسماعیل الفارسی ان کی صفت ان الفاظ میں بیان کرتا ہے .
"میں نے ان کی کئی بار زیارت کی. میں اپنے دل میں وہ سب کچھ یاد کرتا تھا جو میں گزشتہ زمانہ میں ان کے متعلق جانتا تھا. یعنی لوگوں کے ساتھ بدخلقی،تکبر کی بنا پر ان پر نفرت و حقارت کی نظر،اپنی گفتگو،خیالات اور اور عبارت پر فخر اور جاہ و علو مرتبت کی طلب-اب وہ اس کی ضد ہو گئے ہیں (ابن عساکر -تبین کذب المفتری -ص-٢٩٤)
ابوالحسن عبدالغافرفارسی خطیب نیشا پور نے امام غزالی کی شام سے واپسی اور تدریس میں دوبارہ  مصروفیت کے بعد ان  کے مقام اور جدو جہد کو یوں بیان کیا ہے.
" شیر اپنی کچھار سے غائب تھا اور امر،قضائے الہی کے پردہ میں پوشیدہ تھا کہ اسے مبارک مدرسہ نظامیہ (اللہ اسے آباد رکھے) میں تدریس کا اشارہ ہوا. اس کے لیے حکام کے سامنے سر تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا مگر اس نے اس ہدایت کے اظہار کا قصد کیا جس میں وہ مشغول رہا تھا . جس چیز سے وہ الگ ہو چکا تھا، نیز طلب جاہ ،سرداروں سے وابستگی اور مخالفین سے حجت بازی کے جس طوق سے وہ آزاد ہو چکا تھا،اس کی طرف دوبارہ واپسی کی بجاۓ اس نے لوگوں کو نفع پہنچانے کا عزم کر لیا. اس کے خلاف کتنی آوازیں اٹھیں اور طعن و تشنیع کی گئی مگر اس نے نہ تو اس سے کچھ اثر لیا ،نہ طعن کرنے والوں کا جواب دیا اور نہ گر بڑ کرنے والوں کی عیب جوئی سے دل گرفتہ ہوا.(طبقات الشافعیہ حصہ ششم -ص-٢١٦ --بحوالہ عہد ایوبی کی نسل نو اور القدس کی بازیابی اردو سائنس بورڈ لاہور.)
اس ضمن میں ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی لکھتے ہیں. ان  کا طریق کار "پسپائی اور پلٹنا" کا اصول تھا. جو مختلف مذاہب اور اسلامی جماعتوں کے لیے مثال بن گیا.اس کے دو فائدے دیکھے گئے -پہلا، ان  لوگوں نے مذہبی اختلاف و نزاعات کو خیر باد کہہ کر اپنے"نفس خاصہ"کی طرف توجہ کی. جب انکا تزکیہ نفس ہو گیا تو وہ جدید معاشرہ کی طرف"پلٹ" آئے  تاکہ وہ اس میں تعاون و محبت کی نیت سےحصہ لیں، نہ کہ فرقہ بازی اور دنیوی مفاد کے لیے اسے ارزاں فروخت کرنے لگیں.اس طریقہ کی بدولت فقہاء اور صوفیا میں ایسے گروہ پیدا ہو گئے جن کا قوی رجحان اس ایمان کی طرف تھا کہ مذھبی فرقوں کی کتب کے بجاۓ قرآن و سنت سے جدوجہد اور فیصلوں کی کامیابی حاصل کی جاۓ.   
دوسرا یہ کہ امام غزالی کی کوششوں سے منحرف فکر کے رجحانات مثلاّ باطنیہ،فلاسفہ کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور عوام میں ان کی منڈی میں مندی آگئی اور بعد  میں وہ کساد اور سقوط کا شکار ہو گئے  .  
بعد میں آنے والے شیوخ پر آپ کا اثر نمایاں نظر آتا ہے. جیسا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی -رح- کے مواعظ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے عہد کی امراض کی تشخیص کرتے وقت آپ نے ان کے آغاز کے ضمن میں اس امر پر اعتماد کیا، جس پر امام غزالی نے کیا تھا اور اسے اسلامی معاشرہ میں فساد کا بنیادی سبب قرار دیا .اگاہ رہو! وہ ہے"شریعت کا سیاست کے محور کے گرد گھومنا" اور علماء کی حکام کے سامنے عاجزی اور خواہشات دنیا. 
اس ضمن میں حضرت جیلانی فرماتے ہیں .
بہت سے لوگوں کے لیے بادشاہ خدا بن گئے  ہیں. دنیا،دولت،عافیت اور قوت -خدا بن گئی ہے اور حکم چلاتی ہے.تم نے فرع کو اصل بنایالیا ہے ،رزق پانے والے کو رزاق ،غلام کو مالک،فقیر کو غنی، عاجز کو قوی اور مردہ کو زندہ-جب تو نے دنیا کے جابروں،فرعونوں ،بادشاہوں اور دولت مندوں کی تعظیم کی اور اللہ عزو جل کو بھلا دیا اور اس کی تعظیم نہ کی تو تو بتوں کا بندہ قرار پائے گا. جس کی تو تعظیم کرے،وھی تیرا بت ہے.(عبدالقادر- الفتح الربانی-مواعظ -٢٠ شعبان ٥٤٦-ہ/١١٥١ ع)


No comments:

Post a Comment