Wednesday, April 4, 2012

مثنوی مولانا رومی (رح) اور جبر و اختیار کی معنویت

دنیا کی معلوم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ "جبر و اختیار" کا مسلہء ہر دور میں کسی نہ کسی طرح زیر بحث رہا ہے ،اور اس طرح ہر دور کے اہل علم ،اس پر گفتگو کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہے.یہاں ہم مولانا رومی(رح) ،جن کا کلام اسرار و رموز کا ایک خزینہ اور معرفت و عرفان کا ایک گنجینہ ہے ،کے حوالہ سے اس بابت مختصرسا مضمون لکھنے کی کوشسش کرتے ہیں. جبرو قدر ،قضا و قدر 
وغیرہ  کے حوالے سے ضمنی طور پر ہم ،کشف المحجوب ،اور حضرت جیلانی (رح)
کی تحریرو ں سے بھی فائدہ اٹھائیں گے. ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان کی تحریر بحوالہ اردو سائنس میگزین جنوری-مارچ ٢٠٠٩ سے بنیادی طور پر استفادہ کیا گیا ہے.

یہ سوال کہ اعمال کے صدور کا مدار انسان کے ذاتی اختیار و ارادے پر ہے یا وہ  اس معاملےمیں منشاء ایزدی کا پابند اور مجبور محض ہے.--اپنے بطن سے کئی اور سوالات کو جنم دیتا ہے .مثلاّ انسانی زندگی کا کوئی مقصد و مدعا بھی ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہے تو وہ ذاتی ارادے کی تکمیل سے، کس حد تک ،فطری جبر سے بری رہ سکتا ہے ؟اور کیا اس صورت میں جزا و سزا کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے؟
قدیم ہندی تہذیب کے  تناسخ و آواگون ، نظریات  میں بندے کے مجبور محض ہونے کا تصور اور  مظہرپایا جاتا تھا.
ادھر بنی اسرائیل کے الہ واحد، کے عقیدہ پر استوار،معاشرہ میں حکومت الہی کی من گھڑت تعبیر سے نائبین حق کے آسمانی اختیار کی اختراع اور رومن ایمپائر  کے قبول  عیسا ئیت کے بعد کلیسائی رئیسوں کا کلی اختیار نہ صرف، بعض کو بعض ،کی بندگی میں دینے بلکہ خود، ذات احدیت کو بھی تمام تر اختیارات سے برضا و رغیت  دست برداری کا الزام دے کر عرش پر بٹھانے کا موجب بنا --یوں جبر و اختیار ہی کے حوالے سے تمام عالم انسانی،بشریت آدم کی تقسیم کی حد تک قریب قریب ایک ہی سطح پر رہا.  

قدریہ و جبریہ کے رد و قبول میں معتزلہ اور اشاعرہ کی موشگافیوں نے جبر مسلسل کی قدیم زنجیروں میں جن نئی کڑیوں کا اضافہ کیا ان میں ،مشیت ایزدی کی کڑی محکم تر نکلی. جابروں نے اپنے جبر کو، غاصبوں نے اپنے غصب کو ممسکوں و بخیلوں نے اپنے بخل کو ،خدا پنج انگشت یکساں نکرد کے فطری اصولوں کے سہارے اسی مشیت ایزدی کے رنگ میں رنگ کر ایسی ایسی بد رنگی کھیلی کہ خدا کی پناہ.... اس طرح ،رفتہ رفتہ دین و اخلاق اپنے معنوی حسن سے بیگانہ ہوتے گئے .---مولانا جلال الدین رومی(رح-م.٦٧٢ ھ)کا عہد اس کشمکش کا دور عروج تھا 
پیر رومی نے اس الجھن کو کہ "تقدیر پر ایمان انسان کو پا ئے  عمل سے محروم کر دیتا ہے" کمال حکمت سے سلجھایا .
با قضا پنجه زدن نبود جهاد --زان که آن را،خود قضا بر ما نهاد 

ترجمه: جہد و جہاد،تقدیر الہیٰ سے  مقابله نہیں اس لیے کہ اسے خود تقدیر الہیٰ نے ہم پر واجب کر رکھا ہے.واقعی جب جہد و عمل یا تدبر انسانی،خود حکم الہیٰ ہے(انسان جیسا کرے گا ویسا بھرے گا -القرآن.القمر -٥٤-٣٩) تو اسے تقدیر سے پنجہ آزمائی کیونکر کہا جاتا ہے.
اگر مثنوی کی ابتداء سے انتہا تک جا بجا نظر ڈالی جاے تو مولانا بظاہر وحدت الوجود کے حامی و طرف دار نظر آتے ہیں لیکن مسلہء تقدیر کے حوالے سے جبر و اختیار کے معاملے میں وہ "جبر" کے قائل نہیں لگتے حالانکہ"جبر" اور وحدت الوجود ،لازم و ملزوم ہیں، جیسا کہ خود صاحب مثنوی کا ارشاد ہے.

نیک دا  تدبیر که  اورا  منظر است---کا یں  فغان ایں  سرے  هم زاں  سر است 
ترجمہ : ہر صاحب نظر کو بخوبی معلوم ہے کہ ادھر کی فریاد،اسی طرف کی فریاد ہے اور یہی مثنوی کا نکتہ آغاز ہے...

بشنواز نےچوں حکا یت می کند ---وزجدائی ہا ،شکایت می کند 
کز نیستان تا مرا بیر یدہ اند ---از نفیرم مرد و زن نا  لیده اند 
ہر کسے کو دور ما نداز اصل خویش --باز جوید روزگار وصل خویش 
سر من از نالہء من دورنیست ---لیک چشم و گوش را  آن نور نیست 
تن زجان و جاں زتن مستور نیست ---لیک کس را  دید جاں دستور نیست 

ترجمہ: بانسری سے سن کیا بیا ن کرتی ہے-اورجدائیوں کی(کیا) شکایت کرتی ہے.
کہ جب سے مجھے بنسلی سے کا ٹا ہے-میرے نالہ سے مرد و عورت (سب) روتے ہیں 
جو کوئی اپنی اصل سے دور ہو جاتا ہے-وہ  اپنے وصل کا زمانہ پھر تلاش کرتا ہے.
میرا راز، میرے نالہ سے دور نہیں-لیکن آنکھ اور کان کے لیے وہ  نور نہیں.
بدن ،روح سے اور روح، بدن سے چھپی ہوئی نہیں ہے --لیکن کسی کے  لیے روح کو دیکھنے کا دستور نہیں.
مولانا اسے بانسری کی آہ و زاری بتاتے ہیں،وہ کثرت و تعدد کو محض وہم خیال کرتے ہیں،ان کے نزدیک موج و حباب و گہرعین بحرہیں،لیکن جو بھینگا ہے اس سے کیا کہوں--مگر جبرو و اختیار کی بحث میں وو قائلین وحدت الوجود کے بر عکس ،اختیار کو ترجیح دیتے ہیں اور فرماتے ہیں .

سعی،شکر نعمت قدرت بود --جبر تو، انکار آن نعمت بود 
کوشش نعمت قدرت کا شکرانہ ہے، اور جبر،اس نعمت کا کفران ہے.

مولانا نے اختیار کی وکالت کی اور شیر خونخوار اور اس کے شکار ،جنگلی جانوروں کے درمیان مکالمے کی صورت میں اپنے افکار پیش کئے . دوسرے جگہ  ،جبر و اختیار ،کے قصے کا آغاز ،بادشاہ و کنیزک، کے عشق سے ہوتا ہے -کنیزک بیمار ہو جاتی ہے .طبیب معلوم کرتا ہے کہ وہ  ایک سنارکے عشق میں مبتلا ہے. سنار کو بلایا  جاتا ہے .سونے کے  طرح طرح زیورات بنانے کے بعد لونڈی اس کے حوالے کر دی جاتی ہے.لونڈی خوشی سے تندرست ہو جاتی ہے. اب طبیب        
اس سنار کو آہستہ اثر کرنے والا زہر پلاتا ہے. روزبروز سنار کی صحت گرتی جاتی ہے کنیزک کا دل بھی بھرتا جاتا ہے . 

چون زر بخوری جمال او نما ند ---جان  دختر دروبال  او نماند 

رومی نے اس سے جہاں یہ اخلاقی سبق نکالا کہ فانی کا عشق نہ پائیدار ہوتا ہے،عشق پائیدار کا ہو تو ہمیشہ روان  و بصر میں غنچہ سے بھی زیادہ تر و تازہ رہتا ہے--عشق آن زندہ گزیں کو باقی است ، وہاں رومی نے اس سنار کی "موت" کو اللہ کی مرضی اور تقدیر الہیٰ،کہہ کربات شروع کی. 

او ناکشتش از برا ے طبع شاہ ---تا نیامد امر و الہام از الہ
آنکہ او پنجہ نہ بیند در رقم ---فصل پندار و بہ جنبش از قلم.

ترجمہ : اس نے بادشاہ کی خورسندی طبع کے لیے،اسے قتل نہ کیا جب تک کہ اللہ  کا
حکم نہ تھا-وہ  شخص جو لکھنے میں ہاتھ کو نہیں دیکھتا وہ ،قلم کی حرکت کو قلم ہی کا فعل سمجھتا ہے. 
درمیان میں نصرانی دشمن بادشاہ کے مکرو فریب سے انجیل کی متضاد تاویلات پر مبنی بارہ دفتروں کا تذکرہ کیا تاکہ عسائیوں میں پھوٹ ڈالی جائے اور اس کام کی تکمیل کے بعد مکار وزیر کا گوشہ نشیں ہو جانا اور معتقدین کا آہ و زاری کرنا خوشامد سے یہ فریاد بھی عجیب معا ںی کے اظہا ر کا ذریعہ بنتی ہے" لابہ کردن مریدان در خلوت وزیر باردگر ،کے تحت عنوان حضرت رومی نے قرآن حکیم کی آیت کریمہ "ما رميت اذ رميت ولكن الله رمي(الانفال-٨ آيت-١٧) کی تشریح  میں مندرجہ ذیل کلام لکھا ہے. لیکن اس سے پہلے ،حضرت علی ہجویری (ر.ہ-م٤٦٥ ھ) اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ بندے --بندے میں کتنا فرق (ہوتا)ہے -جو اپنی ذات میں قائم اور اپنی صفت میں ثا بت تھا بوجہ کرامت اس کا فعل اسی سے منسوب کیا جو ذات حق سے قائم اور اپنی صفات میں فانی تھا- اس کا فعل اپنا فعل گردانا. انسانی فعل کا ذات حق سے منسوب ہونا اس سے بہتر ہے کہ فعل حق تعا لی بندے سے منسوب ہو. جب فعل حق بندے سے منسوب ہو تو بندہ صفات بشریت میں قائم ہوتا  ہے اور جب بندے کا فعل حق سے منسوب ہو تو بندہ  ذات حق سے قائم ہوتا ہے ،مگر یہ گفتگو سکر وسہو کے تحت آتی ہیں (کشف المحجوب -بیان سکرو سہو ) اختیار کے بارے میں ہجویری فرماتے ہیں" جب تک حق تعالیٰ بندے کو بے اختیار نہ کرے وہ  اپنا اختیار چھوڑنے کا اہل نہیں ہوتا.(حوالہ بالا-بیان- اختیار)  

گر بپرا نیم تیرآ ان کے زما  ست ---ما  کمان و تیر اندزش خداست 
ایں نہ جبر ایں معنیٰ جباری است ---ذکر جباری برانے زاری است 
زاری ماشد    دلیل  اضطرار --              خجلت ما شد دلیل اختیار
گر نبودے اختیار این شرم چیت --ویں دریغ و خجلت و آزرم چیت  
ترجمہ-(یہ کہنا) کہ ہم اگر  تیر پھینکیں، وہ کب ہم نے پھینکا-ہم تو کماندار ہیں
تیر تو خود خدا نے پھینکا --(کتنا عجیب ہے ) یہ جبر نہیں-جباری کا معنیٰ ہے-جباری کا ذکر،(انسان کے ) عجز کا اظہار ہے- یہ عجز اضطرار کا اظہار ہے ،یہ عجز اضطرار کی دلیل ہے اور ہماری ندامت اختیار کی دلیل - اگر اختیارنہ ہوتا تو ندامت اور صلح جوئی کیوں ہوتی.
مولانا مصدر ہستی ذات خدا وندی کو اور ہر آئین و تقدیر کو خدا کی مشیت بتاتے ہیں، لیکن ان کے نزدیک انسان کا اختیار بھی تقدیر ہی کا حصہ ہے. کمان میں تیر رکھنے والا اور میدان بدر میں ریت پھینکنے والےرسول پاک ( ص) تھے -ہان اس  حوالہ سے اس کا نتیجہ--اگر انسان اس نتیجے سے پشیمانی اور صلح جوئی اختیار کرتا ہے تو اپنے فعل کی ذمہ  داری قبول کرتا ہے- ایسے میں خود کو مجبور کہنا کیا معنی رکھتا ہے. (ملخص- مثنوی رومی میں جبر و اختیار کی معنویت -ازڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان )
ایک اور جگہ لکھتے ہیں-ترجمہ ---جب تو اس کا جبر نہیں دیکھتا تو قائل نہ ہو  
-اور اگر جبر دیکھتا ہے تو دیکھنے کی دلیل کیا ہے؟ جس کام کی طرف تیرا میل(رجحان) ہوتا ہے-تو اپنی قدرت(اختیار) کو خلا دیکھتا ہے. جس کام میں تیری خواہش اور میلا ن نہیں ہوتا،اس میں تو جبری بن جاتا ہے کہ  یہ خدا کی جانب سے ہے.  
 اس طرح مولانا رومی نے بتا یا ہے کہ جن معاملات میں انسان خود مختار ہے، انسان کو احکام الہیٰ کہ مطابق سر انجام دینے ہوتے ہیں. شیخ عبدل قا در جیلانی (رح) فرماتے ہیں"تمام حوادث خیر اور شر، اللہ کی تقدیر سے وقو ع پذیر ہوتے ہیں  لیکن مومن کا کام یہ ہے کہ وو تقدیر شر کو تقدیر خیر سے دور کرے -کفر کو ایمان سے ،بدعت کو سنت سے، نا  فرمانی کو طاعت سے،مرض کو دوا سے،جہل کو معرفت سے، سر کشی کو جہاد سے اور فقر کو عمل سے زا ئل کرے.--اکثر لوگ جب قضا و قدر تک پہنچتے ہیں تو رک جاتے ہیں. مگر میں اس تک پنہچا  اور میرے لیے ایک سوراخ کھول دیا گیا . میں اس سے ڈرا اور میں نے تقدیر حق سے،    حق کے ذریعے اور حق کے لیے جنگ کی. مرد  وہ ہے وہ جو تقدیر سے لڑے .نہ یہ کہ اس سے موافقت کرے.(فتاویٰ ابن تیمیہ حصہ -١-ص-٣٠- کتاب القدر ،حصہ ٨،ص -٥٤٧-٥٥٠ ) 
   My other blogs.http://talibhaq.blogspot.com
http://talib-hussainchahilcom.blogspot.com

1 comment: