Tuesday, March 20, 2012

ہند کے تمدن پر اسلامی اثرات- بابا گرو نانک کے حوالے سے .Influence of Islam on Indian Culture

In the"Kalam-e-Wadanyat" by Baba Guro Nanak (A famous book of Sikh Religion"Granth Sahib") there are about 112 Baits by  Baba Farid(d-670A.H), reported to have been included along with other 17 Religious poets and Leaders. Baba Farid is the most renowned Chishti
Sait of Punjab and also the first Punjabi  and the most famous Sufi poet, not only the Punjab,but also whole of the Sub-continent. His two Baits are as under. 
کندھ مصلا،صوف گل ،دل کاتی،گڑوات/باھر دسے چاننا،دل اندھیاری رات 
میں بھلا وا پگ دا،مت میلی ہو جاے، گھیلا روح نہ جانے،سر بھی مٹی  کھاے 
This is the pen picture of a hypocrite and dissembler Sufi in the words of Baba Fareed) He has prayer-mat on his shoulder, woolen robe on his body, his heart is like a dagger, his talk is sweet outwardly very enlightened but his soul is darker than the darkest night! He is a cheat and deceitful!
I have tried to protect my turban from dust while bowing before Allah without realizing that even my head will be eaten by the same dust when I am buried in the grave of mine.
A Bait by Nank.(Trsn: original is  given below) The world of in-laws or the world hereafter and the world of parents or this world,both belong to the Al-mighty Who is Omnipresent!So who so ever is liked by Him will be the successful in this world and in the world hereafter.(*)
In his poetry Baba Guru Nanak Ji ,he has written, following verses in the praise of Hazrat Muhammad (Peace be upon him),the last and final Prophet of Almighty Allah, which are discussed at the end of this short article.   
عرب و ہند کے تعلقات ،کی کئی  وجوہات تھیں ،جن میں تجارت اور ہند کے لوگوں کا وہاں آباد ہونا بھی شامل ہے،جیسا  کہ مورخین نے لکھا ہے .  
زمانہ قدم میں ایران  کو ایک مظبوط اور مستحکم طا قت  کی حثیت حاصل تھی اور عرب کے کچھ علاقوں پر اس کا تسلط تھا .دوسری طرف موجودہ سندھ اور بلوچستان کے علاقائی حکمران ایرانی حکومت کے زیر اثر تھے. جس کا نتیجہ یہ تھا کے بہت سے ہندی باشندے ایران  کی فوج میں داخل ہو گئے تھے اور انہوں نے   عرب کے ان علاقوں میں سکونت اختیار کر تھی جو ایران  کے زیر اثر میں تھے.ان میں سے ایسے لوگ بھی تھے جو ہندوستان کی بعض مصنوعات عرب کے شہروں اور قصبوں میں  لے جاتے اور فروخت کرتے تھے (1) ایران  کے فوجی دستوں میں  ہند سے تعلق رکھنے والے جو بعض جنگجو  قبیلے شامل تھے ، ان میں سے دو کا ذکر عربوں نے کیا ہے اور وہ جاٹ(زط )اورمیڈ ہیں، یہ دونوں سندھ(ہند) کی مشہور قومیں تھیں...اہل عرب  چھٹی صدی عیسوی میں بھی جا ٹوں سے واقف تھے. ایرانیوں کو جب شکست ہوئی  تو بہادر جاٹ ہوا کا رخ دیکھ کر چند شرطوں کے ساتھ مسلمانوں کے لشکر سے مل گئے .سپہ  سالار نے  ان کی بڑی عزت کی اور ان کو اپنے قبیلوں میں داخل کر لیا.   حضرت علی(رض) نے جنگ جمل کے موقع پر بصرا کا خزانہ ان ہی جا ٹوں کی نگرانی میں چھوڑا تھا.(2)مختلف روا یات کے ساتھ ساتھ ، تاریخ  اس بات کی بھی وضاحت کرتی ہے کہ کابل کے علاقے میں بھی جاٹ تھے. حضرت امام ابو حنیفہ(رح) کا خاندانی تعلق کابل کے انہی جا ٹوں سے تھا .(3) ان دو قبائل، جاٹ اور میڈ  کا ذکر تو سید سلمان ندوی نے کیا ہے ، اس کے علاوہ محمّد اسحاق بھٹی نے دوسرے قبیلو ں کا بھی ذکر کیا ہے جو عرب علاقوں  میں مختلف حیثیتوں سے آباد تھے .(4) بعد کے ادوار میں مسلمان تجار ،فاتح، مبلغین، پناہ گزین اور دوسرے لوگ آتے رہے اور یہا ں آباد ہوتے رہے جنہوں نے ہندوستانی تمدن پر گہرے اثرات ڈالے.   
ڈاکٹر تارا چند کی کتاب کے اردو ترجمہ کے مقدمہ میں مترجم محمّد مسعود احمد نے مختلف حوالوں سے  لکھا ہے کہ .
مسلمانوں نے سر زمیں ہند پر پہلی صدی ہجری میں قدم رکھا . اگرچہ وہ یہاں 
بیگانے تھے مگر یگانوں کی طرح  رہے اور غیروں کو اپنا بنایا. اس سر زمیں پر مذہب اسلام کوئی اجنبی نا تھا ، توریت و انجیل کی طرح یہاں کی مقدس کتابوں میں آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشن گوئیاں موجود تھیں.چناچہ رگھ وید میں ،"اسم احمد"، اور ،اتھر وید اور یجر وید میں،" اسما ئے  محمّد(ص)"،موجود ہیں (بحوالہ توضیح العقائد  از مولانا رکن دین)" کپل واستو کا رہنے والا گوتم بدھ جس کو شائد  قرآن عظیم نے "ذو الکفل " سے تعبیر کیا ہے، اپنے خادم نندا کو آں حضرت(ص) کی بشارت دیتا ہے کہ  آنے والا نبی اپنے وقت پر آیے گااور اس کو "میتریا "(رحمة للعا لمین) کہا جا ئے گا. 
(بحوالہ "النبی الخاتم"،اور -مقدمہ تمدن ہند پر اسلامی اثرات از محمّد مسعود احمد -ڈاکٹر تا را چند کی کتاب/مقالہ Influence of Islam on Indian culture کا اردو ترجمہ -مجلس ترقی ادب -لاہور پاکستان )

ڈاکٹر تارا چند اپنی اس دلچسپ کتاب میں لکھتے ہیں:

ہندو اپنے مذہب کو نجات(Moska)کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں جس کے حصول کے لیے وہ  تین راہیں مانتے ہیں :

راہ عمل (Karma)-،راہ علم (Janana) اور راہ تسلیم (Bhakti) -ان تینوں عنوانات کے تحت ہندووں کے تمام مذاہب و ملل  کو ترتیب دینا مناسب ھو گا- البتہ یہ یا د رکھنا چاھیے کی یہ تینوں راستے با ہم جداگانہ اورمتبائں نہیں...ویدوں نے خصوصیت کے ساتھ راہ عمل ہی کو پیش کیا -پھر براہمنوں (Brahmanas) ،کلپ شتروں (Kalp- Sutras) اور کرم میما مسا(Karma Mimmamsa) نے اس کو ترقی دی اور مدون کیا . اور دھرم شاستروں(Dharma Sutras) ،مہا بھارت (Mahabharata) اور پورانوں نے اس کو مقبول عا م بنایا تو پھر اس راہ عمل کی فلسفیانہ اساس کیا ہے ؟

ویدک فکر میں تاریخی ارتقا جیسا بھی ہوا ھو 'اپنی تکمیلی شکل کو پہنچ کر یہ ایک باقاعدہ فلسفیانہ مذہبی نظام ھو گیا. اس نظم میں ایک وجود اعلیٰ ہی بہ طور حقیقت مطلقہ نمایاں ہے . اس کا تصور واحد (Ekam) ،ذات(Pursa), خالق،مطلق(Tad) ،براہمن، ماورا محیط العلیم ، الکریم ،اور نظام عالم کا قیوم  پیش کیا گیا ہے، وہی( پیدا کرنے والا) باپ ہے، اس کآئنات کا رب ہے، اور قاضی الحاجات ہے،" اس بو قلموں مخلوقات میں جمادات ،حیوانات، پرند و چرند سب کا ملک وہی واحد الکل ہے،"(محولہ بالا-ص ٩٧-٩٩ )
ڈاکٹر موصوف آگے چل کر لکھتے ہیں.

آپ(صلی اللہ علیہ و سلم)نے جس دین کی تبلیغ کی وہ انتہائی سادہ تھا .اس کے معتقدات و فرائض کم سے کم تھے. کیوں کہ قرآن پاک میں رب العزت ارشاد فرماتا ہے" خدا انسانوں کا بوجھ ہلکا اور سہل کرنا  چاہتا ہے " توحید باری ، اس دین کا مرکزی عقیدہ تھا اور صلوة  یومیہ اس کا اہم ترین فرض تھا . روزہ ،زکوۃ، حج اور رسالت مصطفوی (ص ) پر ایمان کا مل اس دین کے خاص ارکان تھے. معاشرت میں اس کی مؤثر ترین خصوصیت مسلمانوں کی اخوت و مساوات کی تعلیم تھی، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں پروہتووں کا کوئی طبقہ نہیں. عقیدہء توحید ، کی بدولت دیوتاؤں کی پوجا اور بتوں کی پرستش قطعی حرام قرار دے دی  گئی. مسلما نوں کے مذ ہبی شعور کی  ممتاز خصوصیات یہ ہیں: خالق لا یزال کو حاضر و ناظر اور اس کی قدرت کو ہر شے پر محیط جاننا، اس کے اوامر سے انحراف کے عبرت ناک نتائج سے خوف کرنا، اس کی رحمت و کرم پر مکمل بھروسا اوراس  کی بارگاہ میں تسلیم و رضا .(ص-١٧٣-محولہ بالا).


کیونکہ اسلام اصلا تبلیغی دین ہے اور ہر مسلمان اپنے دین کا مبلغ ہے . بلا شبہ ان میں سے بہتوں  کو(جو مسلمان تبلیغ کے لیے ہند میں آے) معزز  حثیت حاصل تھی- وہ  ہندوستان آے  لیکن ان عسائیوں کی طرح نہیں جو اپنے ہم وطنوں سے نکالے گئے شام میں آ کر آباد ہوئے.بلکہ ایک نئے دین کے ولولے اور فتح و ظفر کے وقار سے بھرے ہو ئے . ... نویں صدی سے پہلے ہی مسلمان، ہندوستان کے پورے مغربی   سواحل پر پھیل چکے تھے ... نیز اپنے جوش و تلقین کی بدولت ہندو عوام میں ایک ہلچل پیدا کر دی تھی.(ص-١٤٦ محولہ بالا ) اس طرح دین سلام بر صغیر کے کونے کونے میں چلا گیا . آنے والے دنوں میں صوفیاے اسلام کی جماعت نے بھی اہم کردار ادا کیا اور ہند کے لوگوں کو بڑی حد تک متاثر کیا .جن میں رما نند ،کبیر اور  گورو نانک جیسے حضرات بھی ہیں.
 مصنف لکھتے ہیں کہ ،لوگوں کے دماغ میں جو بیداری ان صوفیاء کرم نے پیدا کر دی  تھی اس نے ایک ایسے عقلی ماحول (Milieu) کی تشکیل کی جس میں خیالات کا امتزاج ھو سکتا ہے. ضلع گوجرانوالہ، تحصیل شرقپور میں راوی  کنارے تلونڈی نامی ایک قصبے  (ننکانہ صاحب)میں  ...ایک بیدی کھتری(Badi Khatri) محاسب تھا، جس کا نام کالو چند(Mehta Kalu Chand) تھا،اہل قریہ اور راے صاحب اس محاسب کی عزت کیا کرتے تھے. کارتیک ماہ کا تک(نومبر) کی پورنماشی کے دن،١٤٦٩ ع  میں مہتا کے ہا ں ایک لڑکا پیدا ہوا. خاندانی پجاری نے اس کا نام نانک رکھا .(ص-٣٨٥ ) یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ  گرو نانک اسلام کا کتنا مرہوں منت ہے، کیوں کہ یہ اثر نانک کے اقوال و افکار سے ظا ہر و باہر ہے. یہ ظاہر ہے نانک تصوف کے رنگ میں رنگ ہوا تھا      
اور صحیح  یہ ہے کے یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ اس نے ہنود کے صحا ئف مقدسہ سے ٹھیک ٹھیک کتنا کچھ اخذ کیا . نانک کی تصا نیف میں ان  صحا ئف  کے اکا  دکا حوالوں سے یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ ویدک(Vedic) اور پورانوں(Puranic) کے ادب سے محض سطحی واقفیت رکھتا تھا . ..نانک کے ذہن میں یہ حقیقت واضح تھی کہ وہ  ایک ہی مقصد لے کر دنیا میں آیا ہے اور وہ  مقصد اس اعلان میں مخفی ہے:" صرف ایک راستہ دربار الہی کی طرف جاتا ہے جہاں ایک مالک ازلی مسند نشیں ہے" .. نانک  نے بہت سے سفر کئے جن میں ہند وستان کی علاوہ مکہ اور مدینہ شریف بھی شامل ہیں ، اور  کہا جاتا ہے کہ نانک نے شیخ شرف (رح) پانی پتی ( ١٢٠٩-١٣٢٤ -انکے جانشیں مراد ھوں گے)  و ملتان کے شیوخ، پاک پتن میں بابا فرید(رح) کے جانشین شیخ ابراہیم(رح) اور بہتوں سے ملاقات کی... آ خر کار نانک کے دورے ختم ھو گئے...پیغام سنا دیا گیا ...نانک کی لاش کو لینے کے لیے ہندو اور مسلمانوں میں جھگڑا ہوا...جب چادر اٹھائی گئی تو نانک کا جسم غائب ھو چکا تھا، صرف پھول پڑے ہوئے تھے. یہ پھول بانٹ لیے گئے. ہندووں نے ان پھولوں پر تیرتھ گاہ بنائی  اور مسلمانوں نے ایک مقبرہ تمیر کیا، لیکن دریاے راوی کا سیلاب دونوں کو بہا لے گیا .واللہ عالم ...نانک نے بھی دوسرے صوفیوں کی طرح یہ تعلیم دی کہ روح کی سیر الی اللہ کے لیے ایک مرشد(گرو) کی ہدایت کی ضرورت ہے. نانک " کتاب وحدانیت " جسے بعد میں گرنتھ صاحب کا نام  دیا گیا ، کے مصنف ہیں ،جس میں اٹھارہ حضرا ت  کا کلام بھی شامل ہے جن میں بابا فرید، بگھت کبیر اور  روداس جی بھی ہیں. بابا فریدکے کلام سے منسوب ، گرنتھ میں پائے جانے والے اشعارکی تعداد تقریبا ایک سو بارہ ہے .سردار جی سنگھ نے لکھا ہے کہ"سری گورو گرنتھ صاحب جی تمام دنیا کے لیے ہے ...اس میں گرو صاحبان کی بانی کے علاوہ ،دیگر بھگتوں وغیرہ کی بانی کو یکساں مقام حاصل ہے "(اردو ترجمہ از امیر علی خاں)  نانک کے پیروکار سکھ کہلواتے ہیں اور دنیا کے ہر کونے میں ملتے ہیں .ہندوستان کے حالیہ وزیر اعظم کا تعلق بھی اسی مذہب سے ہے . 
 ڈاکٹرظہور احمد اظہر نے گرنتھ صاحب سے باب فرید کے اشعا رلے کر ان کا گر مکھی زبان سے پانچ زبانوں پنجابی،ارد،عربی فارسی اور انگریزی میں ترجمہ کیا ہے . 


دونوں اصحاب کا ایک ایک بیت.
ساہورے ڈوہی نہ لھی، پیئے  ناھیں تھاں --پرواتڑی نہ پچھے، دھن سہاگن ناں (فرید)
 ترجمہ : سسرال میں آ مد و رفت ہےنا  رہائش ٹھکانہ، میکے میں کوئی جگہ ہے نا  پیا دل کی بات پوچھے ہے ،  یہ کیسی نام کی سوہاگن ہے. 


یہ شعر بابا گرو نانک نے بابا فرید کے اوپر والے شعر کے جواب میں کہا- 


ساھورے پیئے  کنت کی، کنت   اگم   اتھاہ 
نانک سو سھاگنی، جو  بھاوے  بے   پرواہ 


ترجمہ: سسرالی دنیا ھو(آ خرت ہو) یا میکے کی دنیا (یہ جہاں فانی ہے ) سب کچھ مالک الملک کا ہے اور ملک الملک کی ذات پہنچ سے با ھر اور بے حد گہرائی  والی ہے.اس لیے نانک تو کہتا ہے کہ سہا گن(کامیاب اور کامران) وہی ہے جو اس ذات بے نیاز کو پسند آ جا ئے . 


بابا گرو نانک جی سے منسوب ، سید شبیر حسیں شاہ ساکن دھرڑوڑ ضلع فیصل آباد ایک قطہ سنایا  کرتے تھے ، اور ایک دفعہ ایک میگزین میں بھی دیکھا  تھا غالباMAG تھا , مگر اس قطعہ کے مطالب وغیرہ بھگت کبیر اور بابا گرو نانک سے منسوب تھے . بہرحال نواے وقت،لاہور، ١٧ اکتوبر ٢٠١٠ میں  سرور منیر راؤ  نے  لکھا ہے کہ . 


نام محمّد(ص) ..کلیہ نانک :


 سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک نے ایک ایسا کلیہ دیا  ہے جس پر پرکھنے سے محمّد (ص ) کا نام نامی"محمّد" کا ئنات  کی ھر چیز خواہ وہ جاندار ہو یا بے جاں سب پر پورا اترتا ہے. یہ کلیہ ثا بت کرتا  ہے کہ کائنات کی ھر چیز پر حضرت محمّد(ص) کا نام لکھا ہے. ...یہ کلیہ بابا گرو نانک نےمندرجہ  ذیل ایک قطعے میں بیان کیا ہے .(ص- سے مراد صلی اللہ علیہ و سلم ہے )


نام لیو ھر اک دا کرو چوگنے داؤ اور دو بڑھا ؤ
(کسی چیز کا نام) ضرب 4X,جمع ٢+)
جو آوے پنج گن کیجو ،بیس بھا گ لگاؤ 
(ضرب 5 x،تقسیم بیس20  /)
باقی بچن کو نو گن کیجو اوپردو بڑھاؤ 
(جو باقی بچے اسے نو سے ضرب دیں اور اس میں ٢+ کریں )
نانک ھر بچن سے محمد(ص) نام پاؤ


مندرجہ بالا کلیہ سے نتیجہ ٩٢ آتا ہے اور عربی زبان میں محمّد(ص) کے حروف ابجد کا جمع بھی ٩٢ آتا ہے .(5)

حوالہ و حواشی:
*.معارف فریدیہ ،از ڈاکٹر ظہور احمد اظہر ،محکمہ اوقاف پنجاب، لاہور.
 The majority  in the Muslims gives the status of a Great Muslim Saint and Sufi poet to Baba Guru Nanak, whereas other asks that Nanak has not embraced Islam but they accepts that he was "Tauheed Parast"
علامہ اقبال نے فر مایا ہے کہ. پھر اٹھی آ خر صدا توحید کی پنجاب سے --ہند کو  اک مرد کا مل نے جگایا خواب سے .
1,3,4. بر صغیر میں اسلام کےاولین  نقوش از محمّد اسحاق بھٹی،ادارہ ثقافت اسلامییہ ،لاہور.اولین مبلغین اسلام جو ہند میں آ ے،ان میں صحابہ کرام،تابعین،بھی شا مل ہیں، تصوف کےحوالا سے حسن بصری( م ١١٠ ہجری -رح ) کا نام قا بل  ذکر ہے.
2.عرب و ہند کے تعلقات ، از سید سیلمان ندوی،مشتاق بک کارنر،لاہور-و- بار صغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ  شاعری  ،از ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ،اوقاف،لاہور .
5.پچھلے دنوں احقر نے ارادہ کیا تھا کہ بابا گرو نانک کے کلام کا کچھ  ترجمہ اور تشریح کی جا ئے  اور اس کے اصل مآخذ تلاش کے جائیں .جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے   ان کے اصل مآخذ اسلامی تعلیمات میں ہیں . میرے چھوٹے بھائی طارق حسین چاہل نے  اس ضمن میں کچھ ادبی سرمایہ بھی فراہم کیا ہے  اور باقی کی تلاش ہے,یہاں اس ادبی مواد کو حاصل کرنا بہت مشکل ہے ،جونہی متعلقہ لٹریچر ملتا ہے انشااللہ کام شروع کیا جا ئے  گا

1 comment: